Skip to main content

کشف المحجوب




شیخ علی بن عثمان الہجویریؒ
اور ان کی کتاب کشف المحجوب پر ایک نظر





ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی







ابتدائیہ

علامہ اقبالؒ نے اپنی مثنوی 'اسرار خودی' میں ایک عنوان اس طرح لکھا ہے:
''حکایت نوجوانی از مرو کہ پیش حضرت سید مخدوم ہجویری رحمۃ اللہ علیہ آمدہ ازستم اعوا فریاد کرد''
اس عنوان کے تحت انہیں نے جو کہانی نظم کی ہے، اس کی تمہید میں یہ ابیات بھی لکھے ہیں :

سیّد ہجویر مخدوم امم
مرقد او پیر سنجر ۱؎ را حرم

بندھاری کوھسار آسان گسخت
در زمین ھند تخم سجدہ ریخت

عہد فاروق از جمالش ۲؎ تازہ شد
حق ز حرف اور بلند آوازہ شد

پاسبان عترت امّ الکتاب
از نگاھش خانۂ باطل خراب

خاکِ پنجاب از دم اوزندہ گشت
صبح ما از مہر اوتابندہ گشت۳؎
مثنوی کے ان ابیات میں 'مخدوم امم' کہنا اور شیخ ہجویری کے قیام لاہور کے زمانے کو عہد فاروق اعظمؓ کا مماثل قرار دینا، خلافِ واقعہ سہی، تاہم ان پانچ بیتوں میں ، پانچویں صدی ہجری کے معروف بزرگ شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ کے بلند روحانی مرتبے، دشوار گزار راہوں سے گزر کر ہندوستان آنے، یہاں آ کر عبادتِ الٰہی میں مصروف رہنے، قرآن پاک کی تعلیم عام کرنے، بت پرستوں کو راہ ایمان دکھانے ، اور خطۂ پنجاب کو ایک رونقِ تازہ بخشنے کی طرف بلیغ اشارات موجود ہیں ۔


نام و نسب اور وطن

حضرت ہجویریؒ کا اصل نام علی اور کنیت ابو الحسن تھی، لیکن کسی خداناشناس نے (یہ سوچے بغیر کہ 'داتا' ہونا صرف خدا کی صفت ہے اور کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر تک اس سے متصف نہیں ہوا) شیخ ہجویری کو 'داتا گنج بخش' کے لقب سے مشہور کر دیا اور یہ لقب ایسا چلا کہ اب اکثر لوگ آپ کو اسی لقب سے پکارتے ہیں ۔ ۴؎
شیخ ہجویریؒ افغانستان کے مشہور شہر غزنیں میں پیدا ہوئے اور مختلف اوقات میں غزنیں کے دو مقامات ہجویر اور جلاب میں قیام پذیر رہے، اس لیے غزنوی، ہجویری اور جلابی تینوں وطنی نسبتیں آپ کے نام کے ساتھ وابستہ ہیں ۔آخری عمر میں مستقلاً لاہور میں سکونت گزیں ہو جانے کی وجہ سے لاہوری بھی کہلاتے ہیں ۔
شیخ علی ہجویریؒ ایک علمی و دینی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ نانہال میں روحانیت کا غلبہ تھا اور ان کے ماموں تاج الاولیاء کے لقب سے ملقب تھے، جس محلے میں ان کا مزار تھا وہ بھی انہی کے نام (لقب) سے معروف تھا۔ اسی محلہ تاج الاولیا میں شیخ کے والدین کی قبریں بھی تھیں اور گیارھویں صدی ہجری تک ان کی پہچان باقی تھی۔۵؎ شیخ کا تعلق حسنی خاندان سادات سے تھا، شجرۂ نسب اس طرح ہے : علی بن عثمان بن علی بن عبد الرحمن بن شجاع بن علی بن حسین بن زید شہید بن حسن بن علیؓ۔ تاریخِ ولادت کہیں ثبت نہیں ہے۔ متعدد اہل علم و قلم مختلف قیاسات و قرائن کی بنیاد پر۴۰۰ھ کے آس پاس قرار دیتے ہیں ۔



تحصیلِ علم

شیخ ہجویریؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا حال کسی تذکرہ نویس نے نہیں لکھا، نہ خود حضرت شیخ نے اپنی کسی تحریر میں درج کیا۔ البتہ کشف المحجوب میں غیر مبہم طور پر شیخ ابوالعباس احمد بن محمد الاشقانی کو اپنا استاد بتایا ہے، جن کے بارے میں لکھا ہے:
''۔۔۔۔ اندرفنون علم اصول وفروع امام بود… مرابا اوانسی عظیم بود ویرا برمن شفقتی صادق،واندر بعضی علوم استاد من بود، ہرگز تامن بودم از ہیچ صنف کسی ندیدم کہ شرع رابہ نزدیک او تعظیم بیشتر از آن بود کہ بہ نزدیک وی بود۔۔۔وبجز امام محقق را ازوی فائدہ نبودی اندر دقّت عبارتش در علم اصول''۶؎
( علم کے فنون اور اصول و فروع میں امام تھے ۔۔۔ مجھے ان سے بہت محبت تھی اور ان کی مجھ پر سچی شفقت تھی۔ کچھ علوم میں وہ میرے استاد تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی کو ان سے زیادہ کسی معاملے میں شریف کی عزت کرتے ہوئے نہیں پایا ۔۔۔ علم اصول میں ان کی عبارتوں کے دقیق ہونے کی وجہ سے سوائے محقّق ائمہ کے ، لوگ استفادہ، نہیں کر پاتے تھے)
اس عبارت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں :
۱۔ شیخ اشقانی بہت بلند مرتبہ عالم تھے۔
۲۔ کچھ علوم میں شیخ اشقانی، شیخ ہجویریؒ کے استاد تھے۔
۳۔ جب تک شیخ ہجویریؒ ان کی خدمت میں رہے، انہوں نے شیخ اشقانی سے زیادہ شریعت کی تعظیم کرنے والا کسی کو نہیں پایا۔
۴۔ ہجویریؒ نے کم از کم جوانی کی عمر میں شیخ اشقانی کی شاگردی اختیار کی ہو گی اور ابتدائی تعلیم اپنے دوسرے غیر مذکور اساتذہ سے حاصل کی ہو گی، کیونکہ کوئی بچہ شیخ اشقانی کی دقیق عبارت سے استفادہ نہیں کرسکتاتھا۔
ایک جگہ یہ لکھا ہوا ملتا ہے:
''از استادم امام ابو القاسم قشیری شنیدم۔۔۔۔۔''۷؎
یہاں شیخ قشیری کی شاگردی کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ حالاں کہ دوسری جگہ جہاں امام قشیری کا مفصل ذکر ہے (ص۱۵۰) وہاں اس طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔
شیخ اشقانی اور شیخ قشیری کے علاوہ شیخ ابو عبد اللہ محمد بن علی الداستانی، شیخ ابوالقاسم علی بن عبداللہ الگرگانی۸؎، شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصیدلانی وغیرہ کا ذکر بھی اس انداز سے ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ ہجویریؒ نے ان حضرات سے بھی علمی استفادہ کیا تھا۔ ۹؎



روحانیات کی تعلیم

جیسا کہ کشف المحجوب میں جگہ جگہ اشارات ملتے ہیں ، شیخ علی ہجویریؒ نے بہت سے اہل حال و قال سے استفادہ کیا تھا۔ لیکن خاص طور پر جس بزرگ سے اکتسابِ فیض کیا وہ ان کے پیر شیخ ابو الفضل الختلی ہیں ، جن کا ذکر انہوں نے اس انداز سے کیا ہے:
''زین اوتاد وشیخ عباد شیخ ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی، اقتداء من اندر طریقت بدوست ۔ عالم بود بہ علم تفسیر دروایات، واندر تصوف مذہب جنید داشت ومرید ابو الحسن حصری بود وصاحب سرّوی۔ واز اقران ابو حمزہ قزوینی وابو الحسن سالبہ۔ شصت سال بحکم عزلتی صادق بہ گوشہ ہا اندرمی گریخت ونام خود را از میان خلق گم کردہ بود، وبیشتر بہ جبل لکان بودی، عمری نیکو یافت وروایات وبراہین بسیار داشت، اما لباس ورسوم متصوفہ نداشتی وبااہل رسم شدید بودی ، وہرگز مہیب ترازوی ندیدم… وآن روز کہ وی را وفات آمد بہ بیت الجن بود، وآن دہی است برسر عقبہ، میان بانیاس ودمشق، سربرکنار من داشت… وجان سپرد۔۔۔''۱۰؎
(اوتاد کی زینت، عابدوں کے شیخ، شیخ ابوالفضل محمد بن الحسن الختلی، طریقت میں مجھے ان کی پیروی حاصل ہے۔ وہ علم تفسیر اور روایات کے عالم تھے۔ تصوف میں وہ شیخ جنید کا مسلک رکھتے تھے۔ ساٹھ سال تک سچی گوشہ نشینی کے تقاضے سے وہ گوشوں میں چھپتے رہے اور اپنے کو لوگوں میں گم نام رکھا۔ وہ زیادہ تر کوہ لکان پر رہتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی ، وہ بہت سی روایتیں اور دلائل رکھتے تھے ، لیکن وہ صوفیانہ لباس اور رسوم کے پابند نہیں تھے۔ وہ رسوم کی شدت سے مخالفت کرتے تھے ۔ میں نے ان سے زیادہ با رعب کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔ جس دن ان کی وفات ہوئی وہ بیت الجن میں تھے۔ (وہ ایک گاؤں ہے جو بانیاس اور دمشق کے درمیان ایک گھاٹی پر واقع ہے) ان کا سر میری گود میں تھا۔ اس حال میں ان کی روح پرواز ہو گئی)
اس اقتباس سے شیخ ابو الفضل الختلی کی علمیت ، بزرگی اور عظمت و کمال کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرید کو پیرسے بہت زیادہ محبت تھی اور پیر کے مرید سے تعلق کا حال یہ تھا کہ مرتے وقت بھی پیر کا سرمرید کی گود میں تھا، نیز یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ شیخ ہجویریؒ کا تعلق شیخ جنید بغدادی کے مکتبِ تصوف سے تھا۔
شجرۂ نسب کی طرح ہجویریؒ کا شجرۂ طریقت بھی شیخ ابو الفضل ختلی، شیخ ابو الحسن حصری، شیخ ابوبکر شبلی، شیخ جنید بغدادی، شیخ ابو الحسن سری سقطی، شیخ داؤد طائی اور شیخ حبیب عجمی کے توسط سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے ۔


ازدواجی زندگی

بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ شیخ نے دو شادیاں کی تھیں ، بعض میں ایک شادی کا ذکر ہے ۔ مگر کشف المحجوب سے ان دونوں باتوں کی تصویب نہیں ہوتی۔ ہجویریؒ نے باب فی آدابہم فی التزویج والتجرید میں ایک جگہ اپنا ذکر یوں کیا ہے:
''ومرا کہ علی بن عثمان الجلابی ام، از پس آنکہ مرا حق تعالیٰ پانزدہ سال از آفت تزویج نگاہداشتہ بود، تقدیر کرد تابہ فتنہ اندر افتادم ، وظاہر وباطنم اسیرپری صفتی شد، بی آنکہ رویت بودہ بود، ویک سال مستغرق آن بودم چندانکہ نزدیک بود کہ دین برمن تباہ شدی، تاخدای تعالیٰ بہ کمال فضل وتمام لطف خود، عصمت خود رابہ استقبال دل بیچارۂ من فرستاد وبہ رحمت خلاصی ارزانی داشت، والحمد للہ علی جزیل نعمائہ''۱۱؎
( مجھ کو، یعنی علی بن عثمان الجلابی کو ، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کرنے کی آفت سے محفوظ رکھا تھا، اس نے میرے لیے مقدر کیا کہ فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں ۔ میرا ظاہر اور باطن ایک پَری صفت کا اسیر ہو گیا، بغیر اس کے کہ اس کا دیدار ہوا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل فضل اور مکمل لطف کے ذریعے اپنی حفاظت کو میرے مجبور دل کے استقبال کے لیے بھیجا اور اپنی رحمت سے مجھے چھٹکارا دے دیا۔ اللہ کا شکر ہے اس کے بے پایاں احسانات پر)
اس پوری عبارت سے کہیں پتا نہیں چلتا کہ شیخ ہجویریؒ نے کوئی شادی کی تھی، بلکہ کسی نادیدہ حسینہ سے غائبانہ اور بے پناہ عشق کا حال معلوم ہوتا ہے اور وہ بھی صرف ایک سال کے لیے ، پھر خدا تعالیٰ نے اس ایمان کو برباد کر ڈالنے والی آفت سے نجات عطا فرما دی۔ ظاہراً تذکرہ نویسوں سے اس عبارت کا مفہوم اخذ کرنے میں غلطی واقع ہوئی ہے۔


سیر و سیاحت

شیخ ہجویریؒ کی سوانح حیات میں سیرو سیاحت کا بھی ایک نمایاں باب ہے۔ کشف المحجوب کے مطالعے سے منکشف ہوتا ہے کہ شیخ نے زیادہ سے زیادہ روحانی کمالات جمع کرنے کے لیے اکثر اسلامی ملکوں کی سیاحت کی تھی، جن میں قہستان، کرمان، خراسان، ماوراء النہر، تر کستان، طبرستان، خوزستان، آذربایجان، فارس، بغداد، عراق، شام وغیرہ شامل ہیں ۔ شیخ ان تمام مقامات پر موجود الوقت ماہرینِ روحانیات کی زیارت وہم نشینی سے فیض یاب ہوئے اور بے شمار طریقت شناسوں سے ملاقات کی ۔ انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ ''سہ صد کس دیدم درخراسان تنہا، کہ ہر یک مشربی داشت کہ یکی از آن اندر ہمۂ عالم بس بود'' ۱۲؎
اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جب صرف خراسان میں شیخ ہجویری کی تین سو کاملین سے ملاقات ہوئی تو تمام ممالک مذکورہ میں مجموعی طور پر کتنے اربابِ دل اور اصحابِ مشرب سے انہوں نے کسبِ فیض کیا ہو گا اور پھر خود بھی روحانیت کے کس مرتبے تک پہنچے ہوں گے۔



مسلک

اصاغر کا تو ذکر ہی کیا، اکابر صوفیہ کے اقوال و افعال میں رفض و تشیع کے اثرات کا نفوذ پایا جاتا ہے۔ شیخ علی ہجویری کا دامن بظاہر اس خباثت سے پاک ہے ۔ ہجویری نے 'باب ائمتہم من الصحابۃ' میں جس انداز سے حضرت ابو بکر صدیق اکبرؓ اور حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا ذکر کیا ہے ، یا 'باب آدابہم فی التزویج والتجرید' میں جس طرح علی کرم اللہ وجہہ کی صاحب زادی ام کلثوم بنت فاطمہؓ کا حضرت عمرفاروقؓ کے حبالۂ نکاح میں آنے کا ذکر کیا ہے، یا جس محبت کے ساتھ شیخ نے امام اعظم حضرت ابو حنیفہؓ کا تذکرہ لکھا ہے اور فقہی مسائل کی جس طرح توضیح کی ہے، ان سب باتوں سے یہ یقین کرنا بعید از عقل نہیں کہا جائے گا کہ حضرت ہجویری اہل السنۃ والجماعت میں سے تھے اور مسلکاً حنفی تھے ۔۱۳؎



اتباعِ شریعت

جیسا کہ ذکر کیا گیا، شیخ ہجویری نے عمر بھر شادی نہیں کی اور تجرّد کی زندگی گزاری، لیکن کچھ چیزوں میں وہ بہت سختی کے ساتھ پابندِ شریعت تھے ۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ:
''چہل سال سفرکردم، وھیچ نمازم از جماعت خالی نبود، وہر آ دینہ بہ قصبہ ای بودم''۱۴؎
(میں نے چالیس سال سفر کیا، لیکن میری کوئی نماز جماعت سے خالی نہ رہی اور ہر جمعہ کو میں کسی قصبہ میں موجود ہوتا تھا)
یعنی شیخ ہجویری نے چالیس سال سفر وسیاحت میں گزارے ، مگر کوئی نماز بھی بغیر جماعت کے ادا نہیں کی، اور ان کا کوئی بھی جمعہ ناغہ نہیں ہوا، ہر جمعے کو وہ کسی نہ کسی قصبے میں ہوتے تھے اور جمعے کی جماعت میں شرکت فرماتے تھے۔



مہاجرتِ ہندوستان اور قیامِ لاہور

تذکرہ نویسوں اور کشف المحجوب کے ایرانی مصحح و محشی نے بھی یہی لکھا ہے کہ شیخ علی بن عثمان ہجویری ۴۳۱ھ سے ۴۶۵ھ تک ۳۴ سال لاہور میں رہے۔ ۴۳۱ھ میں انہوں نے شیخ حسین زنجانی کے جنازے میں شرکت کی اور ان کی تدفین میں بھی شامل رہے۔
بہ ظاہر یہ دونوں باتیں درست معلوم نہیں ہوتیں ، اس لیے کہ شیخ ہجویری نے خود کشف المحجوب میں (ص ۲۶۶) لکھا ہے کہ ان کے چالیس سال سفر میں گزرے تھے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ انہوں نے کم از کم بیس سال کی عمر میں سیاحت شروع کی تھی تو ورودِ لاہور کا سال یا لاہور میں قیام کے آغاز کا وقت ۴۶۰ھ کے آس پاس تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اس بنا پر شیخ حسین زنجانی کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کی کہانی خود بخود جعلی ثابت ہو جاتی ہے۔ اس کہانی کے فرضی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ شیخ الوالفضل کے بیان کے مطابق حسین زنجانی پانچویں صدی کے نہیں ، بلکہ چھٹی صدی ہجری کے رجال میں سے ہیں ، جن کا انتقال ۶۰۰ھ میں یا اس کے بعد ہوا۱۵؎۔ جب کہ شیخ ہجویری پانچویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں ، اور یہیں سے یہ کہانی بھی فرضی ثابت ہوتی ہے کہ حسین زنجانی شیخ ہجویری کے پیر بھائی اور شیخ ابو الفضل ختلی کے مرید و خلیفہ تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہجویری کی کتاب (کشف المجوب) میں جہاں کم و بیش ڈیڑھ سو متقدمین و متاخرین اور معاصرین کا مفصل یا مجمل ذکر موجود ہے ، شیخ حسین زنجانی کے وجود کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ اگر وہ ان کے پیر بھائی اور معاصر ہوتے تو ان کا راست یا بالواسطہ تذکرہ لازماً اس کتاب میں ہوتا۔
بہر حال شیخ ہجویری جب بھی لاہور میں قیام پذیر ہوئے ہوں ، وہ ان کی زندگی کا آخری حصہ تھا جس کو انہوں نے طوعاً و کرہاً لاہور میں بسرکیا۔ لاہور میں شیخ نے مسجد اور مدرسہ قائم کیا اور عالمانہ و صوفیانہ دونوں طریقوں سے خلقِ خدا کو راہِ اسلام پر لانے کی کوشش کی ۔ ان کی کوشش بار آور ہوئی اور ہزاروں بت پرست ایمان کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے ، جن میں ایک خاص نام رائے راجو کا بتایا جاتا ہے ۔ یہ سلطنت غزنیں کی طرف سے لاہور کا نائب السلطنت تھا جو سب سے پہلے شیخ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا اور پھر شیخ الہند یا شیخ ہندی کے لقب سے معروف ہوا۔ شیخ نے کچھ عرصے کے بعد کسی بات سے بد دل ہو کر اپنا مدرسہ بند کر دیا اور بقیہ زندگی عبادت اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہ کر گزار دی۔


وفات

شیخ کے آخری ایام اور قریب الوفات حالات کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ عام طور پر صرف یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ آپ کی وفات ۴۶۵ھ میں ہوئی۔ مگر یہ تاریخ بھی مشکوک قرار پاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ کشف المحجوب میں شیخ ابو القاسم قشیری (م۴۶۵ھ) ہی نہیں ، بلکہ شیخ ابو الحسن سالبہ (م ۴۷۳ھ) کا ذکر بھی مرحومین کے انداز میں کیا گیا ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے قیاس کو تقویت پہنچتی ہے جو کہتے ہیں کہ شیخ ہجویری نے ۴۸۱ سے ۵۰۰ھ کے درمیان کسی سال وفات پائی ہو گی۔ ۱۶؎
شیخ ہجویری کا مزار آج بھی لاہور میں موجود ہے اور اسلام آباد میں ''کتابخانۂ گنج بخش'' کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم ہے، جہاں خاص طور پر فارسی ادب کے محققین برائے استفادہ جاتے ہیں ۔



آثارِ علمیہ

شیخ علی ہجویری اپنے زمانے کے علوم متداولہ (تفسیر حدیث، فقہ وغیرہ) کے عالم تھے۔ اس وقت تک صوفیوں کا جو لٹریچر قلم وقرطاس کی قید میں آ چکا تھا، اس پر ان کی گہری نظر اور طبعی مناسبت بھی۔ شعر گوئی کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے اور انشاء اور سادہ سلیس نثر لکھنے پر بھی قادر تھے ۔ ایک زمانے میں انہوں نے اپنا ایک دیوان بھی مرتب کیا تھا جس کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ:
''دیوان شعرم کسی بخواست و باز گرفت، واصل نسخہ جز آن نبود، آن جملہ را بگردانید ونام من از سرآن بیفکندو انجم ضایع کرد۔''۱۷؎
(کسی نے میرے اشعار کا دیوان مانگا اور لے گیا۔ میرے پاس اصل نسخہ اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ اس نے میرا نام اس میں سے نکال دیا اور میری محنت برباد کر دی)
بہ ظاہر اس سے بد دل ہو کر شیخ نے پھر شعر گوئی ترک کر دی۔ اب ان کے نام سے منسوب صرف ایک غزل تذکروں میں ملتی ہے :

اشتیاقت روزوشب دارم دلا
عشق تودارم نہاں وبرملا

جان بخواہم داد اندر کوی تو
گرمرا آزار آید یا بلا

سوزو تو دارم میان جان ودل
میدہم از عشق تو ہردم صلا

دلبرا، از توہمی خواہم تھا
کن تو آری دمکن ہرگز تولا

ای علی تو فرخی در شہرد کو
دہ زعشق خویشتن ہر سو صلا۱۸؎

نثر میں شیخ نے بہت سی کتب ورسائل تصنیف فرمائے تھے ، جن میں سے اب کشف المحجوب کے سوا کسی کتاب کا کوئی نسخہ کہیں دستیاب نہیں ہے ۔ البتہ چند کتابوں کے نام کشف المحجوب کے مختلف مقامات پر مذکور ہیں ۔ اور وہ ہیں : منہاج الدین، اھل الصفۃ، فناوبقا، کشف الاسرار،شرح کلام منصور حلاّج، اسرار الخرق والمؤنات، الرعایۃ بحقوق اللہ، البیان لاھل الایقان، بحر القلوب وغیرہ ۔



کشف المحجوب

اس وقت شیخ کی واحد تصنیف جو دست برد زمانہ سے محفوظ رہی وہ 'کشف المحجوب' ہے ۔ کشف المحجوب کا جو نسخہ اس وقت پیش نظر ہے وہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان (اسلام آباد) سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا ہے ۔ اس کی جلد اور سرورق پر دونوں جگہ کتاب کے نام کے نیچے یہ بھی چھپا ہے ''صحیح ترین نسخہ کہ بطبع رسیدہ است'' اس نسخے کی تصحیح و تحشیہ کی خدمت ایرانی محقق علی قویم نے انجام دی ہے ۔ مصحح نے 'وصف کتاب و ترجمۂ مصنف آن' کے عنوان سے مختصر سا دیباچہ یا پیش لفظ بھی لکھا ہے ۔ اس میں ص ۷ پر فصل الخطاب لوصل الاحباب (خواجہ محمد پارسا) ، رسالہ ابدالیہ (شیخ یعقوب چرخی)اور کشف الظنون فی اسامی الکتب والفنون (حاجی خلیفہ چلپی) کے حوالے سے یہ بتایا ہے کہ اس کتاب کا پورا نام 'کشف المحجوب لارباب القلوب' ہے ۔ لیکن خود ان کے تصحیح فرمودہ 'صحیح ترین نسخے' کے متن سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اصل متن کے پہلے صفحے پر تسمیہ اور حمد و صلوٰۃ کے بعد شیخ ہجویری کا اپنا بیان اس طرح ہے :
''طریق استخارہ سپردم، واغراض کہ بہ نفس بازمی گشت از دل ستردم، وبہ حکم استدعاء ابو سعید ہجویری اسعدہ اللہ قیام، ومراین کتاب راکشف المحجوب نام کردم۔۔۔۔''۱۹؎
(میں استخارہ کے طریقہ پر چلا اور جن اغراض کا تعلق نفس سے تھا ان کو میں نے دل سے کھرچ دیا اور ابو سعید ہجویری کے حکم پر عمل کیا اور اس کتاب کا نام کشف المحجوب رکھا)
خود مصنف کے الفاظ میں ''لارباب القلوب'' کا لاحقہ کہیں موجود نہیں ہے ۔ آگے تین چار صفحات میں شیخ نے خود اپنی منقولہ بالا عبارت کی تشریح کی ہے ، مگر وہاں بھی 'لارباب القلوب' کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔ لہٰذا ماننا چاہیے کہ اس کتاب کا پورا نام 'کشف المحجوب' ہی ہے ۔ اسی عبارت میں شیخ نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کتاب انہوں نے ابو سعید ہجویری کی خواہش و فرمائش پر تصنیف فرمائی ہے ۔
کشف المحجوب سے پہلے تصوف و طریقت کے بیان میں جو اہم ترین کتابیں لکھی گئیں وہ یہ تھیں :
کتاب الرعایۃ (ابو عبد اللہ الحارث المحاسبی (م۲۴۳ھ)۔کتاب الصدق (ابوسعید احمد بن عیسیٰ الخراز (م۲۸۶ھ) کتاب اللمع (ابو النصر عبد اللہ بن علی السراج (م۳۷۸ھ) قوت القلوب (ابو طالب محمد بن علی المکی (م۳۸۶ھ) الرسالۃ القشیریۃ (ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری (م۴۶۵ھ)۔
یہ سب کتابیں عربی زبان میں تھیں ۔ شیخ ہجویریؒ نے سب سے پہلے فارسی زبان میں اس موضوع پر قلم اٹھایا اور حق یہ ہے کہ حق ادا کر دیا۔ اس کتاب کی فارسی نثر کے بارے میں علی قویم نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ :
''یہ کتاب اس عہد میں تصنیف ہوئی جب فارسی نثر میں رواں ، دل فریب اور فصیح اسلوب رائج تھا۔ یہ نفیس کتاب علمی طرز انشاء ، خوش نما ادبی اسلوب کے ساتھ ملال آور طوالت اور خلل انداز اختصار سے پاک ہونے کی بنا پر ایک بے نظیر کتاب ہے۔ اس میں قدیم افعال و صفات اور عہد سامانی کے استعمالات پائے جاتے ہیں اور سبک نگارش کے اعتبار سے اس کا درجہ اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید(محمد بن منور)، تذکرۃ الاولیاء( شیخ فرید الدین عطار) اور مصباح الہدایہ ومفتاح الکفایہ( محمود بن علی کاشانی) سے بلند ہے۔ اور یہ ان نادر علمی کتابوں میں سے ایک ہے جو مغلوں کی آتشِ جہاں سوز سے باقی بچ گئی ہیں ''۲۰؎


مشتملات

نثر و انشاء کی حیثیت سے تو کشف المحجوب بلند پایہ کتاب ہے ہی، اپنے مضامین کے اعتبار سے بھی اس کا شمار بے نظیر کتابوں میں ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ اپنے موضوع پر ایک جامع کتاب ہے ۔ بعد کے اکثر اکابر مصنفین تصوف مثلاً خواجہ فرید الدین عطار نیشاپوری ، ملا نور الدین عبد ا لرحمان جامی، خواجہ پارسا اور خواجہ گیسو دراز وغیرہ نے اپنی تالیفات میں اس سے استفادہ کیا ہے ۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ شیخ ہجویری نے اپنی ضائع شدہ مختلف کتابوں اور رسالوں میں جو کچھ لکھا تھا وہ سب نہیں تو اس کا بڑا حصہ کشف المحجوب میں جمع ہو گیا ہے اور یہ ایک وسیع معلومات کی حامل جامع کتاب بن گئی ہے ۔ اس کے مضامین و موضوعات کا اجمالی خاکہ یوں ہے :
باب اثبات العلم (ص۱۲) باب الفقر(ص۱۹) باب التصوف(ص۲۷) باب مرقعہ داشتن(گدڑی پہننا-ص۳۸) ۔ باب اختلافہم فی الفقر والصفوۃ (فقر اور یک سوئی کے بارے میں صوفیا کے اختلافات -ص۴۷) باب بیان الملامۃ (ص۵۰) باب فی ذکر ائمتہم من الصحابۃ (چاروں خلفائے راشدین حضرات ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کا ایک مفصل تذکرہ-ص۵۶)
باب فی ذکر أئمتہم من اہل البیت (حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت علیؒبن حسینؓ، حضرت محمدؒبن علیؒ بن حسینؒ، اور جعفرؒ بن محمدؒ بن علیؒ بن حسینؓ کا تفصیلی ذکر ص۶۰)۔ باب ذکر اھل الصفۃ (اس باب میں ۲۱ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم کا مختصر تذکرہ کیا ہے ، پھر لکھا ہے کہ سب کا تذکرہ طول کا باعث ہو گا۔ ص۷۲) ۔باب ذکر ائمتہم من التابعین (اس باب میں اویس قرنی، ہرم بن حیان العبدی، حسن البصری، سعید بن المسیب ، رحمۃ اللہ علیہم کا ذکر ہے۔ ص۷۴) باب فی ذکر ائمتہم من أتباع التابعین الی یومنا ہذا (اس باب میں حبیب فارسی سے شروع کر کے اپنے پیر کے پیر شیخ ابو الحسن الحصری البصری تک ۶۴بزرگوں کا ذکر خیر کیا ہے ، ص ۷۹) ۔ باب فی ذکر أئمتہم من المتأخرین( اس باب میں اپنے مرشد روحانی شیخ ابو الفضل ختلی، اپنے استاد ابو العباس الاشقانی، شیخ قشیری اور سات دوسرے معاصر اکابر صوفیاکا ذکر کیا ہے جن میں اکثر سے خود مصنف نے کسب فیض کیا تھا ص ۱۴۶) ۔ باب فی ذکر رجال الصوفیۃ من المتأخرین علی الاختصار (اس باب میں شام، عراق، فارس، قہستان، آذر بایجان، طبرستان، کش، کرمان، خراسان ، ماوراء النہر اور غزنین کے بہت سے صوفیوں کا ذکر ایک ایک دو دو فقروں میں کیا ہے ، ص ۱۵۳)
باب فی فرق فرقہم ومذاہبم وآیاتہم وحکایاتہم (اس باب میں قصاریہ، طیفوریہ، جنیدیہ، نوریہ، سہلیہ، حکیمیہ ، خرازیہ، خفقیہ، ساریہ، حلولیہ فرقوں کا ذکر ، اور مندرجہ ذیل موضوعات پر علمی اور فلسفیانہ بحث کی ہے:
محاسبہ، حقیقت رضا،فرق مقام و حال، سکر وصحو، حقیقتِ ایثار، حقیقتِ نفس و معنی ہویٰ ، مجاہداتِ نفس ، حقیقت ہویٰ، اثباتِ ولایت، اثباتِ کرامت، فرق کرامات و معجزات، مدّعی الٰہیت کے ہاتھ پر خرق عادت کا اظہار ، اولیاء کی کرامات کا ذکر، اولیاء پر انبیاء کی فضیلت، ملائکہ اور مومنین پر انبیاء و اولیاء کی فضیلت، فنا و بقا، غیبت و حضور، جمع و تفرقہ، تفرقہ فی الحکم ، روح۔ یہ باب ص ۱۵۶ سے ص ۲۳۵ تک مسبوط ہے ۔
اس کے بعد کشف حجابات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے :
کشف الحجاب الاول فی معرفۃ اللہ تعالیٰ (ص ۲۳۵)
کشف الحجاب الثانی فی التوحید(ص ۲۴۴)
کشف الحجاب الثالث فی الایمان (ص ۲۵۱)
کشف الحجاب الرابع فی الطہارۃ (اس کشف میں طہارت پر بحث کے بعد توبہ اور اس کے متعلقات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ص۲۵۵)
کشف الحجاب الخامس فی الصلوٰۃ (اس کشف میں نماز کے بیان کے بعد، محبت اور اس کے متعلقات، نیز اللہ کی اولیاء سے محبت اور اولیاء کی اللہ سے محبت کی کیفیت کا بیان ہے ۔ ص ۲۶۲)
کشف الحجاب السادس فی الزکوٰۃ (اس کشف میں زکوٰۃ کے ساتھ جو دوسخاوت کا بھی بیان ہے ۔ ص ۲۷۴)
کشف الحجاب السابع فی الصوم (اس میں روزے پر بحث کے بعد بھوک اور اس کے متعلقات کا بھی ذکر ہے ۔ ص ۲۷۹)
کشف الحجاب الثامن فی الحج (اس کشف میں حج کے بعد مشاہدات کا بیان ہے ۔ ص ۲۸۵)
کشف الحجاب التاسع فی الصحبۃ مع آدابہا واحکامہا (اس کشف میں صحبت، سفر و حضر، کھانے پینے، چلنے پھرنے، بولنے اور چپ رہنے، سوال کرنے اور نہ کرنے، شادی کرنے اور مجرّد رہنے کے آداب بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ باب ص ۲۹۱ سے ۳۲۰ تک ہے۔
کشف الحجاب العاشر فی منطقہم و حدود الفاظہم و حقائق معانیہم (اس کشف میں حال اور وقت ، مقام اور تمکین، محاضرہ اور مکاشفہ، قبض اور بسط، انس اور ہیبت، قہر اور لطف، نفی اور اثبات، مسامرہ اور محادثہ، علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین، علم اور معرفت ، شریعت اور حقیقت کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے۔ اسی کشف کے آخر میں صوفیہ کی بہت سی اصطلاحات کے معانی و مطالب بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ جیسے الخواطر، الواقع، الاختیار، الامتحان، البلا، التحلی، التجلی، التخلی، الشرور، القصود، الاصطناع، الاصطفا، الاصطلام، الرین، الغین، التلبیس، الشرب، الذوق وغیرہ ۔ یہ کشف ص ۳۲۰ سے ۳۳۸ تک پھیلا ہوا ہے )
کشف الحجاب الحادی عشر فی السماع وبیان انواعہ (اس کشف میں سماعِ قرآن ، سماعِ شعر، سماعِ اصوات و الحان، احکام سماع، سماع کے بارے میں اختلافات، حقیقت سماع میں صوفیہ کے مراتب (وجد، وجود اور تواجد و مراقبہ) رقص ،الخرق (جامہ دری) اور آدابِ سماع وغیرہ کا ذکر ہے ۔ یہ کشف ص ۳۳۸ص ۳۶۷ تک پھیلا ہوا ہے۔



کشف المحجوب پر اجمالی تبصرہ

کتاب کے مضامین و مشتملات کا جو خاکہ اوپر پیش کیا گیا ہے وہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ شیخ ہجویری کی یہ کتاب دقیق ، جامع اور وسیع معلومات پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساڑھے نو سو سال کا عرصہ گزر نے کے باوجود یہ کتاب آج تک محفوظ اور اپنے موضوع سے ربط رکھنے والوں میں مقبول و متداول ہے ۔ صوفی علماء اور علمائے صوفیہ دونوں طرح کے لوگ اس کتاب کے مطالعے سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ خواجہ فرید الدین، مولانا جامی، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری، جہانگیر اشرف سمنانی اور خواجہ نظام الدین دہلوی وغیرہ نے اپنے اپنے وقت میں اس کے مضامین سے استفادہ کیا ہے اور دل کھول کر اس کی تعریف کی ہے ۔ نظام الدین اولیاء کی طرف منسوب ایک قول بہت مشہور ہے کہ :
''اگر کسی را پیری نباشد چون این کتاب را مطالعہ کند، اورا پیدا شود''۲۱؎
(جس کا کوئی پیر نہ ہو وہ اس کتاب (کشف المحجوب) کا مطالعہ کرے تو اس کو (پیر) مل جائے گا)



چند قابل توجہ نکات

اہل علم نے تصوف کی تین قسمیں بیان کی ہیں : اسلامی، فلسفیانہ، اور ملحدانہ۔ کشف المحجوب میں ملحدانہ تصوف کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہے اور شیخ ہجویری نے جگہ جگہ جس طرح معتزلہ، سوفسطائیہ، روافض، قرامطہ اور ملاحدہ کے کچھ نظریات کا مدلّل طور پر ابطال کیا ہے ، اس پر وہ ان شاء اللہ آخرت میں خصوصی اجر کے مستحق ہوں گے۔ لیکن مومنانہ یا اسلامی تصوف کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ یہ کتاب فلسفیانہ تصوف کے اثرات سے پاک نہیں رہ سکی ہے ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے متقدمین و معاصرین کی صوفیانہ تحریروں کا جو ذخیرہ تھا اس میں بڑی حد تک فلسفے اور کسی حد تک الحادی نظریات کی آمیزش ہو چکی تھی۔ اور یہ آمیزش ایسی تھی کہ تیسری صدی ہجری سے آج تک صوفیانہ لٹریچر اس سے پاک نہیں ہوسکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شیخ ہجویری کی کشف المحجوب میں اسلامی تعلیمات کے خلاف باتیں ہرگز نہ پائی جاتیں ۔ سطور ذیل میں اس طرح کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
۱۔ ایک آیت کی یہ تشریح کی گئی ہے :
''قولہ تعالیٰ: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ(الذاریات:۵۶) ای لیعرفون (نیافریدہم پریان و آدمیان را، مگر از برای آنکہ تامرا بشناسنہ ۔۔۔''۲۲؎
آیتِ بالا میں 'عبادت' کا مطلب معرفت و شناخت بتایا گیا ہے جو غلط ہے۔ یہ عقیدہ صوفیوں نے اس لیے گھڑا ہے، تاکہ تمام احکام الہی کی اطاعت کی ذمہ داری سے چھٹکارا پا کر بس عشق و مستی میں پڑے رہیں ۔
۲۔ کشف المحجوب میں بہت سی ضعیف اور موضوع احادیث بھی ملتی ہیں ۔ مثلاً:
وپیغمبر ﷺ گفت: ان من عباد اللہ لعباداً یغبطہم الانبیاء والشہداء ، قیل: من ہم یا رسول اللہ؟ صفہم لنا، لعلنا نحبّہم ، قال: قوم تحابوا بروح اللہ من غیر اموال ولا اکتساب، وجوہہم نور علی منابر من نور، لا یخافون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس، ثم تلا: ''أَلا إِنَّ أَوْلِیَاء اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون'' (ص۱۹۰)٭
اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی بھی، چھوٹے سے چھوٹے درجے کے صحابی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن یہاں ایک جھوٹی روایت ٭٭ کا بہانہ لے کر ولی کا درجہ صحابہ ہی نہیں ، نبیوں سے بھی بڑھا دیا گیا ہے کہ نبی بھی ولی پر رشک کریں گے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ رشک کسی ایسی فضیلت پر ہی کیا جاسکتا ہے جو رشک کرنے والے کو حاصل نہ ہو۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ لکھنے والا بھی اس باطل نظریہ کا قائل ہے کہ ''ولایت نبوت سے افضل ہے'' یہ بالکل روافض کے اس عقیدے کی طرح ہے کہ امامت نبوت سے افضل ہے ۔ اعاذنا اللہ منہا۔
''قولہ ﷺ بطن جائع احب الی اللّٰہ من سبعین عابداً عاقلاً''۲۳؎
(ستّر با عقل عبادت گزاروں کے مقابلے میں اللہ کو ایک بھوکا پیٹ زیادہ پسندہے)
''وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اجیعوا بطونکم واضمأوا اکبادکم واعروا اجسادکم، لعل قلوبکم یرون اللہ عیانا فی الدنیا''۲۴؎
(اپنے پیٹوں کو بھوکا رکھو، اپنے جگروں کو پیاسا رکھو اور اپنے جسموں کو ننگا رکھو، اس طرح امید ہے کہ تم اپنے دل کی نگاہوں سے اللہ کو دنیا ہی میں دیکھ لو گے)
یہ روایتیں من گھڑت ہیں ۔ ان سے بہ ظاہر خلاف شرع بھوکے ننگے پھرنے والوں کی فرضی ولایت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۳۔ کشف المحجوب کے بہت سے مقامات پر اولیاء اللہ کی بڑی فضیلتیں اور منقبتیں بیان کی گئی ہیں ۔ چند اقتباسات درج ذیل ہیں :
''خدای عزو جل را اولیاء است کہ ایشان را بہ دوستی و ولایت مخصوص گرد انیدہ است، ووالیان ملک وی اند کہ برگزیدہ شان ونشانہ اظہار فعل خود گردانیدہ وبہ انواع کرامات مخصوص داشتہ وآفات طبیعی ازیشان پاک کردہ واز متابعت نفس وہویٰ شان برھانید۔۔۔''۲۵؎
(اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہیں جن کو اس نے اپنی ولایت کے لیے مخصوص کر لیا ہے ۔ وہ اس کے ملک کے حاکم ہیں کہ اس نے ان کو منتخب کر لیا ہے اور اپنے افعال کے اظہار کی علامت بتا دیا ہے، ان کو طرح طرح کی کرامت کے ساتھ مخصوص کیا ہے ، طبیعی آفات سے ان کو پاک کر دیا ہے اور نفس اور خواہش کی پیروی سے ان کو آزاد کر دیا ہے)
''ومرایشان را والیان عالم گردانیدہ تامجرد مرحدیث وی راگشتہ اند وراہ متابعت نفس را اندر نوشتہ، تااز آسمان باران بہ برکت ایشان می بارد ، واز زمین نبات بہ صفاء احوال ایشان روید، وبرکافران مسلمان نصرت بہ ہمت ایشان یا بند''۲۶؎
(اور ان کو دنیا کا والی بنا دیا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اس کی باتوں کے لیے مجرّد ہو گئے ہیں اور انھوں نے نفس کی پیروی کے راستے کو لپیٹ لیا ہے۔ یہاں تک کہ آسمان سے بارش انہی کی برکت سے ہوتی ہے۔ اور زمین سے سبزہ انہی کے حالات کی صفائی سے اگتا ہے۔ اور مسلمان کافروں پر انہی کے ارادے سے کامیابی حاصل کرتے ہیں )
''اولیاء خداوند تعالیٰ مدبران ملک اندومشرفان عالم و خدای تعالیٰ حل و عقد آن بدیشان بازبستہ و احکام عالم را موصول ہمت ایشان گردانیدہ است۔۔۔''۲۷؎
(اللہ تعالیٰ کے اولیاء ملک کو چلانے والے اور عالم کی نگہبانی کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے عالم کا بست و کشاد انہی سے متعلق کر دیا ہے اور عالم کے احکام کو انہی کے ارادہ سے ملا دیا ہے)
ان اقتباسات میں بتایا گیا ہے کہ:اولیا والیانِ ملک خدا ہیں ، آسمان سے ان کی وجہ سے بارش برستی ہے ، نباتات ان کی وجہ سے اگتی ہیں ، مسلمان کافروں پر فتح ان کی وجہ سے پاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے ملک کے مدبر، عالم کے نگراں وہی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے عالم کے بست و کشاد کو انہی سے وابستہ کر دیا ہے ، گویا ساری دنیا کے منیجر، سپرنٹنڈنٹ ، سپروائزر بلکہ مختار کل وہی لوگ ہیں ، حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ مرتبہ تو کسی بڑے سے بڑے پیغمبر کو بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں بخشا۔ اس مشرکانہ عقیدے کی زد براہ راست قرآن پر پڑتی ہے اور اس میں قرآن کی متعدد صریح آیتوں کا انکار پایا جاتا ہے ۔
۴۔ ''سہل بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ گفت: شکم پُر از خمر دوست تردارم کہ پُراز طعام حلال، گفتند: چرا؟ گفت: از برای آنکہ چون شکم پر از خمر شود، عقل بیارامہ، وآتش شہوت بمیرد، وخلق از دست و زبان وی ایمن شود، واما چون پراز طعام حلال شود فضول آرزو کند وشہوت قوت گیرد، ونفس بطلب نصیبب ہای خود سربرآورد۔''۲۸؎
(سہل بن عبداللہ نے کہا : میرے نزدیک پیٹ کا شراب سے بھرا ہونا اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ وہ کھانے سے بھرا ہو۔ کہا گیا: کیوں ؟ انھوں نے جواب دیا ، اس لیے کہ جب پیٹ شراب سے بھرا ہوتا ہے تو عقل سوجاتی ہے اور شہوت کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور مخلوق اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ ہو جاتی ہے ۔ لیکن جب حلال کھانے سے پیٹ بھرا ہوتا ہے تو وہ فضول آرزوئیں کرتا ہے، شہوت قوی ہو جاتی ہے اور نفس اپنے حصے کی طلب میں سرکشی کرتا ہے)
اس اقتباس میں شراب جیسی حرام چیز سے بھرے ہوئے پیٹ کو اللہ کی بخشی ہوئی حلال روزی سے زیادہ پسندیدہ بتایا گیا ہے، جب کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں شراب پینا حرام اور قابل سزا جرم ہے ، مگر ہمارے صوفیوں کو اکل حلال کے مقابلے میں شراب سے بھرا ہوا پیٹ زیادہ پسند ہے اور اس کے لیے بالکل خلاف عقل توجیہات و تاویلات وضع کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہوتا۔
۵۔ بعض مقامات پر تجرّد کی زندگی کو افضل قرار دیا گیا ہے:
''ومجتمع اند مشائخ این طریقت رضی اللہ عنہم برآنکہ بہترین و فاضل ترین مجرد انند، اگر وی شان از آفت خالی باشد و طبعشان از شہوت معرض''۲۹؎
(طریقت کے مشائخ کا اس پر اجماع ہے کہ بہترین اور فاضل ترین لوگ وہ ہیں جو مجرّد رہتے ہیں اگر ان کا دل آفت سے خالی ہو اور ان کی طبیعت شہوت سے اعراض کرتی ہو)
ودرجملہ قاعدۂ این طریقت برتجرید نہادہ اند، چون تزویج آمد حال دیگر گون شد''۳۰؎
(خلاصہ یہ کہ طریقت کا اصول تجرید (یعنی غیر شادی شدہ ہونے) پر رکھا گیا ہے۔ جب شادی کی جاتی ہے تو حالت بدل جاتی ہے)
ان اقتباسات میں سارے مشائخ طریقت اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سب سے زیادہ صاحب فضیلت غیر شادی شدہ اصحاب ہیں اور وہی دنیا میں سب سے بہتر ہیں ۔ بشرطیکہ ان کے دل آفت سے خالی ہوں اور ان کی طبیعت شہوتوں سے اعراض کرتی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء علیہم السلام کے دل بھی آفت سے خالی نہیں تھے اور ان کی طبیعت بھی شہوت سے پاک نہیں تھی جو انہوں نے شادیاں کیں اور متاہّل زندگی گزاری؟
اقتباس بالا میں تجرد کی زندگی کو طریقت کا اصول و ضابطہ بتایا گیا ہے ۔ یہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے ۔ قرآن پاک میں ''انْکِحُوا'' جمع کے صیغے کے ساتھ آیا ہے۔ اس اعتبار سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے مخاطب سب ہی مسلمان ہیں ۔ مشہور حدیث ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : النکاح من سنتی۳۱؎ یعنی نکاح میری سنت ہے ۔ نیز فرمایا فمن رغب عن سنتی فلیس منی۳۲؎ (جو میری سنت سے روگردانی کرے وہ میری امت سے خارج ہے)۔
اسی طرح کا ایک جملہ یہ بھی ہے : ''و در جملہ نخستین فتنہ ای کہ برسر آدم آمد اصل آن اززنی بود در بہشت ''۳۳؎۔ یہ اقتباس صوفیوں کے یہودیت سے متاثر ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہودی فلسفہ سے ماخوذ ہے ۔ حضرت آدمؑ کے لیے حضرت حوا کا وجود فتنہ نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کا ظہور تھا جو تخلیق عالم و آدم میں کار فرما تھی۔ یہاں یہ بھی عرض کر دیا جائے تو مفید ہو گا کہ قرآن پاک میں جہاں جہاں بھی شیطان کے بہکانے اور شجر ممنوعہ سے کچھ کھانے کا ذکر ہے ، وہاں تثنیہ (دو) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کا ترجمہ یا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے آدمؑ اور حوا دونوں کو بیک وقت بہکایا اور دونوں نے بیک وقت درخت مذکور سے کچھ کھایا۔ یہودی اس قصے میں صرف حضرت حوّا کو قصور وار قرار دیتے ہیں ، جو قطعاً غلط اور قرآن کے واضح بیان کے خلاف ہے ۔
۶۔ ''و نیز گویند کہ : چون ابراہیم علیہ السلام گفت مر اسماعیل علیہ السلام را: یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک ، اسماعیل علیہ السلام گفت: ہذا جزاء من نام عن حبیبہ، لولم تنم لما امرت بذبح الولد(ای پدـر این جزاء آنکس است کہ بخسبد از دوست وازدوست غافل باشد، اگر نخفتی نفر مودندی کہ پسر را بباید کشتن، پس خواب مرترا بی پسر گردانید و مرابی سر، درد من یک ساعت باشد ودرد تو ہمیشہ''۳۴؎
( جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ : میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، تو اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ : اے باپ ، یہ اس شخص کی جزا ہے جو دوست سے سوجائے اور دوست سے غافل ہو جائے ، اگر تم نہ سوتے تو یہ فرمان نہ ملتا کہ بیٹے کو ذبح کرنا ہے ، پس نیند نے تم کو بے پسر کر دیا اور مجھ کو بے سر کر دیا۔ میری تکلیف تو گھڑی بھر کی ہو گی مگر تمہارا رنج ہمیشہ رہے گا)
یہ ایک صوفی کا بیان ہے ۔ قرآن کریم میں سورۂ صافّات (آیات : ۱۰۰-۱۰۷) میں تفصیل سے واقعۂ ذبح بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اپنا خواب سنایا تو بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریے ۔ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ اب قارئین خود ہی غور فرمائیں کہ قرآن میں مذکور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعے کو صوفیہ نے کس طرح پیش کیا ہے۔ اسے قرآن مجید کی معنوی تحریف کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
۷۔ و حق تعالیٰ موسی علیہ السلام راہم چنین فرمود کہ چون بہ قطع منازل و گذشتن مقامات بہ محل تمکین رسیدی اسباب تلوین از تو ساقط شد، فاخلع نعلیک والق عصاک (نعلین از پای بیروں کن وعصا بیفگن) کہ آن آلت مسافت است و اندر حضرتِ وصلت وحشت مسافت محال باشد ''۳۳؎
(اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ سے بھی اسی طرح فرمایا کہ جب تم منازل طے کر کے اور مقامات سے گزر کر محل تمکین میں پہنچ گئے تو تلوین کے اسباب تم سے ساقط ہو گئے (تو اپنے پیروں سے نعلین نکال دو اور عصا ہاتھ سے پھینک دو) کہ یہ مسافت کے آلے ہیں اور وصل کی بارگاہ میں مسافت کی وحشت محال ہوتی ہے)
اس اقتباس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جس واقعے کی طرف اشارہ ہے وہ قرآن پاک کی سورہؑ طٰہٰ میں مذکور ہے ، لیکن وہاں تمکین تلوین وغیرہ کا کوئی چکر نہیں ہے، یہ کسی صوفی نے اپنی طرف سے اختراع کیا ہے ۔ علاوہ ازین قرآن پاک کی آیت کو اس طرح لکھا گیا ہے۔ 'فاخلع نعلیک والق عصاک' یہ آیت اس طرح قرآن میں کہیں نہیں ہے ۔ بلکہ 'فاخلع نعلیک' سورۃ طٰہٰ کی آیت ۱۲ کا درمیانی ٹکڑا ہے ، پھر آیت ۱۸ میں 'عصا' کا ذکر ہے اور اس کے بعد آیت ۱۹ میں 'القہا' آیا ہے۔ ان دونوں میں خلط ملط کر کے والق عصاک اس طرح لکھا گیا ہے گویا ایک ہی آیت ہے اور پھر اس سے اپنا خود ساختہ مفہوم اخذ کیا گیا ہے جو قرآن کے بیانات سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتا۔
۸۔ ''واندر آثار آمدہ است کہ : یک ماہ آن خلق اندرآن صحرا ھیچ نحوردندی، و اطفال نگر سیتندی وشیرنخواستندی، وہرگاہ کہ خلق از آنجاباز گشتندی بسیار مردم از لذت کلام وصوت ولحن داؤد علیہ السلام مردہ بودندی، تاحدی کہ گویند: یک بار ہفت صد کنیز ک عذراء بہ شار بر آمد کہ مردہ بودندوروازدہ ہزار پیر نیز''۳۴؎
(آثار میں ہے کہ ایک مہینہ وہ لوگ جنگل میں کچھ نہیں کھاتے تھے اور بچے نہیں روتے تھے، دودھ نہیں مانگتے تھے اور جب لوگ وہاں سے واپس لوٹتے تو بہت سے لوگ داؤدؑ کے کلام کے لہجے اور لحن کی لذّت سے مر چکے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ایک بار سات سو کنواری لڑکیاں شمار کی گئیں جو مر چکی تھیں اور بارہ ہزار بوڑھی عورتیں مر گئی تھیں )
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے حضرت داؤد علیہ السلام کا امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے ان چار مخصوص پیغمبروں میں سے ہیں جن پر اللہ نے اپنی چار خاص کتابیں نازل فرمائیں ۔ ان کا کام خلقِ خدا کو راہِ راست دکھانا اور احکامِ الہی بندوں تک پہنچانا تھا، گانا سناسنا کر کنواری لڑکیوں یا بوڑھی عورتوں کو مست کرنا یا جان سے مار ڈالنا ہرگز نہیں تھا۔ قرآن پاک کے مختلف مقامات کی ۶۷ آیتوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر ہوا ہے ، مگر کہیں اس طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ان کی خوش آوازی سے پرندے یا انسان مر جاتے تھے ۔ قرآن پاک میں سورہ انبیاء، سورۂ سبا اور سورہ ص میں صرف اتنا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو اس بات کے لیے مسخر فرمایا تھا کہ وہ صبح و شام حضرت داؤدؑ کے ساتھ خدا کی تسبیح وتقدیس میں مشغول ہوں ، لیکن یہ کہیں نہیں آیا کہ کوئی پرندہ یا انسان ان کی آواز سن کر موت کے گھات اتر جاتا تھا ۔
ان مثالوں سے بہ خوبی واضح ہو جاتا ہے کہ کشف المحجوب میں بہت سی باتیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف پائی جاتی ہیں ۔ ہمارے لیے قرآن وسنت لائق تقلید ہیں ۔ جو باتیں ان سے ٹکراتی ہیں وہ قابلِ رد ہیں ، خواہ ان کا انتساب بڑے سے بڑے بزرگ یا صوفی کی طرف ہی کیوں نہ ہو۔

حواشی و مراجع

۱۔ پیر سنجر سے یہاں اقبال نے خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کو مراد لیا ہے ، لیکن سنجر (س ن ج ر) نہ تو کسی مقام کا نام ہے ، نہ خواجہ معین الدین کے کسی مرید کا نام تھا ۔ یہاں علامہ اقبال نے سخت دھوکہ کھایا ہے ، ان کو سجزی (س ج ز ی) لکھنا چاہیے تھا، کیونکہ خواجہ کا تعلق سجستان سے تھا جہاں کے لوگ سجزی (س ج ز ی ) کہلاتے ہیں ۔
۲؎ یہاں بھی اقبال کو تسامح ہوا ہے۔ حضرت فاروقؓ کا جلال مشہور ہے نہ کہ جمال!
۳؎ کلیات اقبال (فارسی) شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹڈ لاہور، ۱۹۸۵، صفر ۵۱-۵۲
۴؎ مشہور ہے کہ شیخ ہجویریؒ کے لیے پہلے پہل 'گنج بخش' کا لقب خواجہ معین الدین چشتی نے استعمال فرمایا تھا جب انہوں نے شیخ کے مزار پر لاہور جا کر چلّہ کشی فرمائی تھی، پھر یہ لقب مشہورِ عام ہو گیا۔ مگر یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ۔ کیونکہ خواجہ اجمیری کے مزار ہجویری پر چلّہ کشی کرنے سے پہلے بھی یہ لقب ان کے نام کے ساتھ پایا جاتا تھا۔ زیادہ درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس زمانے میں شیخ عراق میں قیام پذیر تھے اور خوب کمانے اور لٹانے میں مشغول تھے، اسی زمانے میں شیخ کی سخاوت اور داد و دہش سے متاثر ہو کر کسی نے انھیں اس نام سے پکارا ہو گا، اور اسی طرح لاہور کے قیام میں شیخ کی فیاضی سے اثر پذیر ہو کر کسی ہندو نے 'داتا' کہنا شروع کر دیا ہو گا۔ بعد میں دونوں کا مرکب 'داتا گنج بخش' ہو کر ایسا رائج ہوا کہ آج تک لوگ اس کو ترک کرنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ، حالاں کہ اس طرح کے القاب سے شرک کی بو ہر صحیح العقیدہ مسلمان محسوس کرسکتاہے ۔ یہاں یہ بھی عرض کر دینا بے محل نہ ہو گا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مقابر پر جانے کی اجازت صرف اس لیے دی ہے کہ وہاں جا کر انسان کو موت یاد آتی ہے اور وہ اپنے اعمال کی درستی کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ چلّہ کشی اور مزار کے پاس بیٹھ کر ضربیں لگانا شریعت اسلامی کی روٗ سے مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔
۵؎ مغل خاندا ن کا مشہور ملحد شاہ زادہ دارا شکوہ جب افغانستان گیا تھا تو اس نے ان قبروں کی زیارت کی تھی ( سفینۃ الاولیا)
۶؎ کشف المحجوب ، شیخ علی بن عثمان الہجویری الجلابی الغزنوی، با تصحیح علی قویم، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ، اسلام آباد، ۱۹۷۸ء، ص ۱۵۱
۷؎ کشف المحجوب ، ص ۲۰۱
۸؎ یہ لفظ اس کتاب میں جہاں جہاں بھی آیا ہے ہر جگہ 'الگرگانی' ہی لکھا ہے، لیکن فارسی لفظ 'گرگانی' پر الف لام لگانا درست نہیں ۔ یا تو اس کو گرگانی لکھنا چاہیے تھا، یا پھر اس کا معرب 'الجرجانی' لکھنا چاہیے تھا۔
۹؎ کشف المحجوب ،ص ۱۴۸، ۱۵۱،۱۵۴
۱۰؎ حوالہ بالا، ص ۱۵۰
۱۱؎ حوالہ بالا ص ۳۱۸
۱۲؎ حوالہ بالا ص ۱۵۵
۱۳؎ ملاحظہ کیجیے کشف المحجوب ص ۵۶،۵۸،۸۳،۳۱۵
۱۴؎ حوالہ بالا ص ۲۶۶
۱۵؎ آئین اکبری، ابو الفضل علامی ، مطبع نول کشور لکھنؤ ، ۱۸۶۹ء ، جلد ۳، ص ۲۷۸
۱۶؎ مقالات محمد شفیع لاہوری، طبع لاہور ، ۱۹۶۰ء
۱۷؎ کشف المحجوب ، ص ۹
۱۸؎ آب کوثر، شیخ محمد اکرام، ادبی دنیا، دہلی، سنہ ندارد، ص ۷۸
۱۹؎ کشف المحجوب ، ص ۹
۲۰؎ کشف المحجوب ، ص ۸ (دیباچہ محقق)
۲۱؎ تاریخ مشائخ چشت ، پروفیسر خلیق احمد نظامی، ادارہ ادبیات دلّی ، دہلی، ۱۹۸۰ء ، ج۱، ص۱۲۸، بنقل از 'دررنظامی' (قلمی)
۲۲؎ کشف المحجوب ص ۲۳۵
۲۳؎ حوالہ بالا ، ص ۲۸۳
۲۴؎ حوالہ بالا ، ص۲۸۳
۲۵؎ حوالہ بالا ، ص۱۹۰
۲۶؎ حوالہ بالا ، ص ۱۹۱
۲۷؎ حوالہ بالا ، ص۲۰۲
۲۸؎ حوالہ بالا ، ص۳۰۴
۲۹؎ حوالہ بالا ، ص۳۱۷
۳۰؎ حوالہ بالا ، ص۳۱۸
۳۱؎ سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح
۳۲؎ صحیح بخاری و صحیح مسلم، کتاب النکاح
۳۳؎ حوالہ بالا ، ص۳۱۷
۳۴؎ حوالہ بالا ، ص۳۰۸
۳۵؎ حوالہ بالا ، ص۳۲۴
۳۶؎ حوالہ بالا ، ص۳۵۱

نوٹ: اس مقالہ کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے :
۱۔ تاریخ تصوف ، علامہ محمد اقبال ، ترتیب پروفیسر صابر کلوروی، مکتبہ الحسنات، دہلی، ۱۹۹۴ء
۲۔ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان وہند، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور، ۱۹۷۱ء،ج۳
۳۔ اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ، مرکزی انجمن خدام القرآن ، لاہور، ۲۰۰۲ء
۴۔ تصوف اور اہل تصوف، سید احمد عروج قادری، مرتبہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ۱۹۹۴ء
۵۔ نزہۃ الخواطر ، عبدالحئی الحسنی ، دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد، ۱۹۶۲ء،ج ۱
٭٭٭


ماخوذ: تحقیقات اسلامی، علی گڑھ فروری ۲۰۰۸
تشکر: محمد نیاز شریف مرحوم، جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
--
Regards,

PA/Chief Education
P&D Department

Comments

Popular posts from this blog

mass converter gram kilogram lb oz

Mass Converter Mass, t = Mass, kg = Mass, g = Mass, mg = Mass, μg = Mass, lb = Mass, oz = Mass, US ton = With this converter, you can simultaneously convert several mass units to other mass units. Simple example: 1 kg = 1000 g Composite example: 1 kg and 10 g = 101000 mg Abbreviations for mass: t - tonne (metric ton); kg - kilogram; g - gram; mg - milligram; μg - microgram; lb, lbs - pound; oz - ounce.

Bacteria and Food-Borne Illnesses

What are foodborne illnesses? Foodborne illnesses are caused by eating food or drinking beverages contaminated with bacteria, parasites, or viruses. Harmful chemicals can also cause foodborne illnesses if they have contaminated food during harvesting or processing. Foodborne illnesses can cause symptoms that range from an upset stomach to more serious symptoms, including diarrhea, fever, vomiting, abdominal cramps, and dehydration. Most foodborne infections are undiagnosed and unreported, though the Centers for Disease Control and Prevention estimates that every year about 76 million people in the United States become ill from pathogens, or disease-causing substances, in food. Of these people, about 5,000 die. What are the causes of foodborne illnesses? Harmful bacteria are the most common cause of foodborne illnesses. Some bacteria may be present on foods when you purchase them. Raw foods are the most common source of foodborne illnesses because they are not sterile; examples inc...