جناب فاطمہ زہراء(س) کی ولادت
یونس بن ظبیان فرماتے ہیں کہ امام صادق نے فرمایا کہ خدا کے ہاںفاطمہ کے نو نام ہیں:
١۔فاطمہ ، ٢۔صدّیقہ ، ٣۔مبارکہ ، ٤۔طاہرہ ، ٥۔زکیہ ، ٦۔راضیه ، ٧۔محدّثہ ، ٨۔مرضیہ ، ٩۔زہرا .
پھر آپ نے فرمایا ! '' فطمت من الشّر''آپ ہر برائی اور شر سے جدا اور دور رکھی گئی ہیں پھر آپ نے فرمایا !''اگر امیرالمؤمنین حضرت علی نہ ہوتے تو حضرت آدم سے لیکر تا روز قیامت روئے زمین پر فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہو تا''. بعض روایت میں لفظ فاطمہ کی وجہ تسمیہ یه ذکر ہوئی ہے : '' فطمت ہی و شیعتہا من النار'' آپ اور آپکے چاہنے والے دوزخ سے آزاد کئے گئے ہیں . اس لفظ کی مزید یہ وجہیں بھی ذکر ہوئی ہے ١۔اپنے علم کی وجہ سے دوسروںسے بالا ہیں ٢۔ماہانہ عادت سے پا ک ہیں ٣۔لوگ ان کی معرفت سے عاجز ہیں ٤۔اور یہ کہ آپ کی مومن اولاد کو اللہ تعالی نے دوزخ کی آگ سے دور رکھا ہے اور اسی طرح آپ کے شیعوںکو بھی آتش جہنم سے آزاد کیا ہے ۔دوسری روایت یہ ہے کہ نام فاطمہ، اخدا کے نام فاطر سے لیا گیا ہے ، آپ کا نام طاہرہ بھی ہے چونکہ آپ ہر ظاہری و باطنی نجاست سے پاک و پاکیزہ ہیں اور عورتوں کے مخصوص ایام (حےض ونفاس )سے بھی دور تھیں .
اور زہرا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ کا نور روزانہ تین بار حضرت علی کیلئے چمکتا تھا ، جیسا کہ ابو ہاشم جعفری ، امام حسن عسکری سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ سے میں نے زہرا کی وجہ تسمیہ پوچھا تو آپ نے فرمایا ! اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت صبح آپ کا چہرہ علی کے لئے چاشت کے وقت آفتاب کی طرح اور وقت ظہر چمکتے چاند کی طرح اور وقت غروب چمکتے ہوئے ستارے کی طرح چمکتاتھا ،
شیخ صدوق نے امام رضا سے یہ روایت نقل کی ہے: '' کہ جب ہلال ماہ رمضان طلوع کرتا تو آ پکا نور اس پر غالب آجاتا اسی وجہ سے چاند نظر نہیں آتا اور جوں ہی آپ ہٹ جاتیں تو چاند دکھائی دینے لگتا تھا ''.
امام صادق فرماتے ہیں کہ!وجہ تسمیہ زہرا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے جنت میں سرخ یاقوتی گنبد بنایا ہے جس کی بلندی فضا میں ایک سال کی مسافت کے برابر ہے اور وہ گنبد قدرت الہی سے فضا میں ایسے معلق ہے کہ نہ ہی زمین سے لگا ہوا ہے اور نہ ہی آسمان سے کسی چیز میں لٹکا ہوا ہے ، اور اس کے ایک لاکھ دروازے ہیں جس کے ہر دروازے پر ایک ہزار فرشتے بطور دربان معین ہیں ، اہل بہشت اس گنبد کو یوں دیکھتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان میں کسی چمکتے ہوئے ستارے کو دیکھتے ہو ، اور اہل جنت کہتے ہیں یہ چمکتی شئی زہراء ہے جو فاطمہ کی ملکیت ہے اسی طرح ایک اور وجہ تسمیہ یوں بیان ہوئی ہے کہ جب اللہ تعالی نے فرشتوںکوآزمانے کا ارادہ کیا تو ان کی طرف ایک تاریک بادل کو روانہ کیا جس کی وجہ سے ہرطرف اتنی تاریکی چھا گئی کہ فرشتے ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے ، فرشتوں نے خدا سے تاریکی دور کرنے کی در خواست کی ، اللہ تعالی نے انکی دعا کو قبول فرمایا اور نور فاطمہ کو پیدا کیا جو کہ فانوس کی مانندتھا ،پھر اس فانوس کو عرش کے اطراف میں آویزاں کیا ، اس نور کی جگمگاہٹ سے ساتوں آسمان اور زمینیں روشن ہوگئیں ، فرشتوں نے اللہ کی تقدیس و تسبےح شروع کی ، اللہ تعالی نے فرمایا !''مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! تمہاری قیامت تک کی تسبےح کا ثواب ، محبین حضرت زہرا اور انکے شوہر اور ان کی اولاد کے چاہنے والوںکو عطا کروں گا ۔
آپ کے دیگر اسمائے مبارکہ یہ ہیں ، حصان ، حرّہ ، سیدہ ، عذراء ، حوراء ، مریم کبری ،اور بتول .
روایت میں آپ کو بتول کہنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ نے اپنے زندگی میں کبھی بھی عورتوں کی ماہانہ عادت نہیں دیکھی تھی اسی طرح حضرت مریم مادر عیسی نے بھی کبھی ماہواری نہیں دیکھی تھی ، اسی لئے انہیں بھی بتول کہا جاتا ہے ، اور کہا گیا ہے کہ بتول لفظ'' َبَتُل ''سے مشتق ہے جس کے معنی انقطاع (دنیا سے دوری )اور جدائی کے ہے اور چونکہ آپ تمام عورتوں سے بلحاظ فضیلت و دین و شرافت بہتر اور ممتاز تھیں لہذا آپ کو بتول کہا جاتا ہے ، اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو دنیا سے الگ کرلیا تھا اور اپنے خدا سے وابستگی اختیار کی تھی لہذا آپ کو بتول پکارا کیا کرتے تھے ،
مرحوم ابن شہر آشوب ،کتاب مناقب میں رقم طراز ہیں کہ روایت صحےحہ کے مطابق حضرت فاطمہ کے بیس نام ہیں ، جن میں سے ہر ایک آپ کی کسی نہ کسی فضیلت و شرف پہ دلالت کرتا ہے ، یہ تمام نام ابن بابویہ نے اپنی کتاب''مولد فاطمہ ''میں نقل کی ہے .
آپ کے کنیہ مبارکہ:
١۔ام الحسن ، ٢۔ام الحسین ، ٣۔ام المحسن ، ٤۔ا م الائمہ ، ٥۔ام ابیها ، ٦۔ام المؤمنین .
مذکورہ بالا کنیتیں حضرت سیدہ کی زیارت میں ذکر ہوئی ہیں ،
کتاب مناقب میں ذکر ہوا ہے کہ آسمانوں میں حضرت سیدہ کو نوریہ،سماویہ اور حانیہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ،لفظ حانیہ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنے شوہر اور اپنی اولاد کے لئے انتہائی ہمدرد اور مہربان تھیں .
شوہر سے ہمدردی کا نمونہ:
اپنے شوہر سے حضرت سیدہ کی ہمدرد ی کا سب سے بڑا ثبوت یه ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے حق امامت وخلافت کا دفاع کیا اور اسی وجہ سے انہیں مصائب کا سا منا کرنا پڑا امام علی کے مخالفین نے اسی لئے آپکی توہین کی تھی،اور آپ کے دروازے کو آگ لگائی تھی ِ،جب جلتا ہوا دروازہ گرا تو آپ کی کچھ پسلیاں ٹوٹ گئیںنیزآپ کے بازو پر تا زیانہ ماراگیا جس کا اثر وفات تک ایک نیلے دائرے کی شکل میںباقی رہا غرضیکہ ان مصائب وآلام کی وجہ سے ہی آپ کی شہادت ہوئی یه تمام تر مصائب وآلام امام علی کے دفاع کی وجہ سے آپ کو سہنے پڑے اور جب آپ کی وفات کا وقت ہوا توحضرت علی نے آپ کوروتے ہوئے دیکھا حضرت علی نے آ پ سے رونے کی وجہ پو چھی تو سیدہ نے عر ض کیا میں ان مصائب کا تصو رکرکے رورہی ہو ں جو میرے بعدآپ کے او پر ہوں گے حضرت علی نے فرمایا : مت روؤ خدا کی قسم یه مصا ئب راہ خدا میںہیںاس لئے میر ے لئے یہ انتہائی معمولی اور بے وقعت ہیں .
شیخ مفید کتاب ارشاد میں نقل فرما تے ہیں :'' رسول خدا نے ہجرت کے آٹھویں برس جنگ ذات السلاسل کے لئے حضرت علی کو دشمن کی سر کو بی کے لئے صحرائے یا بس کی طرف روانہ کیا روایات میں ہے کہ حضرت علی کا ایک مخصوص پیلے رنگ کا رومال تھا جسے آپ سخت جنگ کے وقت سر پر باندھا کرتے تھے جب رسول کریم (ص)نے انہیںذات السلاسل کے لئے جانے کا حکم صادرفرمایا تو آپ اپنے بیت الشرف میں تشریف لائے اور حضرت زہرا سے وہ رومال طلب کیا تو انہوں نے عر ض کیا آپ کہاں جانا چاہتے ہے کہیںایسا تو نہیںکہ آ پ قتل ہو جائیں ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے مجھے ریگزاریا بس کی طرف جانے کا حکم دیا ہے حضرت زہرا اپنے شوہر کی محبت کی وجہ سے رونے لگیں،جب آپ رو رہی تھیںتو اس وقت رسول خداگھر میں تشریف لائے اور فرمایا: اے فاطمہ !تم کیوں رورہی ہو ؟اور کیا آپ کو یه اندیشہ ہے کہ کہیںتمہارے شوہر قتل ہوجا ئیں گے ؟ خدا نے چا ہا تو علی قتل نہیںہوں گے .
حضرت علی نے عرض کیا یا رسول خدا کیا آپ یه پسندنہیں کر تے ہیں کہ میں شہادت پا کر جنت میں چلا جاؤں ۔
اپنی اولا د پر حضرت زہرا کی شفقت کا نمونہ
حضرت زہرا کو اپنی اولاد سے کس قدر محبت تھی س کا اندازہ کر نے کے لئے درج ذیل روایت کافی ہے ؛
جنگ ذات السلاسل ہجرت کے آٹھو یں سال ہوئی تھی ۔اس میں کفار کی طر ف سے بارہ ہز ار سوار شریک تھے۔اسلامی لشکرکی قیادت حضرت علی نے کی تھی اور اس میں آ پ نے کا میابی حاصل کی تھی ۔سورہ عادیات آپ اور آپ کے دوستوںکی شان میں نازل ہوئی تھی ۔مجمع البیان جلد دہم صفہ ٥٢٨
شیخ صدوق نے حماد سے اور انہوںنے امام جعفرصادق سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: کسی شخض کے لئے جا ئز نہیں ہے کہ وہ اولا د زہر ا میں سے بیک وقت دو عورتوں سے عقد کر ے کیونکہ جب زہر ا یه سنتی ہیں ،تو انہیں یہ بات ناگوار گزرتی ہے حماد نے پو چھا : حضرت زہر ا کو اس کی خبر مل جا تی ہے ؟
امام نے فرمایا : ہاں خدا کی قسم ۔
ابن عنین شاعر کا واقعہ ُُُ ابن عنین سا تو یںصدی کے شا عر تھے ۔ ان کے متعلق عمدۃ الطا لب میں ایک عجیب وغر یب واقعہ مر قو م ہے .
ابن عنین نے ایک سال مکہ کا سفر کیا اور اس سفر میں اس کے پاس بہت سا مال وا سبا ب بھی تھا راستہ میں سادات بنی داؤد نے اس کا تما م مال واسباب لوٹ لیا اور اس ہنگامہ دارو گیر میں وہ زخمی بھی ہوا ۔ لو ٹنے والوں نے اس کے مال واسبا ب پر ہی قنا عت نہیں کی بلکہ اسکے کپڑے تک اتر والئے ۔ اور اسے زخمی حالت میںچھوڑ کر بھاگ نکلے .
ا بن عنین نے سلطان یمن عزیز بن ایوب کو خط لکھااور اس سے سادات بنی داؤد کی تنبیہ کی درخواست کی اس وقت سلطان یمن نے اپنے بھائی ناصر کو سمندر کے ان ساحلی علاقوں کے انتظام اور دیکھ بھال کے لئے بھیجا تھا جسے اس نے تھوڑے ہی عرصے قبل فرنگیوں سے آزاد کرایا تھا . ا بن عنین نے سلطان یمن کو مزید ترغیب دینے کے لئے یہ شعر تحریر کئے :
اعیت صفات نداک المصقع اللسنا وجزت فی الجود حدالحسن والحسنا
و لا تقل صاحب الا فرنج افتحہ فما تساوی ا ذ ا قا یستہ عد نا
وا ن ا ردت جھاداً فارق سیفک من قوم اضاعوا فروض اللہ و السننا
طھر بسیفک بیت اللہ من دنس و من خساسۃ اقوام بہ وخنا
و لا تقل انھم اولاد فاطمہ لو ادرکو آل حرب حاربوا الحسنا
آپ کی نیک صفات اور آپکی سخاوت نے فصےح وبلیغ افر اد کو عا جز کر دیا اور سخاوت وبخشش میں آپ اس مقام پرپہنچ چکے ہیںجہاں اچھائی اور نیکی کی تمام سرحدیں بہت پےچھے رہ جاتی ہیں . آپ یه نہ کہیں کہ میں نے اس ساحل کو فتح کر لیا ہے جس پر انگریز استعمار نے قبضہ کر لیا تھا ، کیونکہ ساحل عدن اور ساحل فرنگ کاکوئی موازنہ ہی نہیںہے ،
اگر آپ جھاد کے خواہش مند ہیںتو آئے اور اپنی تلوار سے ان لوگوں کو قتل کریں جنہوں نے فریضه الہی اور سنت پیغمبر(ص) کوضائع کیا ،
آپ اپنی تلوار سے اللہ کے گھر مکہ کو ناپاکی اور پست اقوام سے پاک کریں آپ یہ نہ کہیں کہ یہ اولاد فاطمہ ہیں اس لئے میں ان سے جنگ نہیں کرتا ، بلکہ یہ اتنے گھٹیا لوگ ہیں کہ اگر اولاد ابو سفیان کے دور میں ہوتے تو امام حسن سے بھی جنگ کرتے .
جب ابن عنین نے اپنے خط میں یہ نظم تحریر کرکے اسے سلطان یمن کو بھیج دیا ،تواس نے عالم خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ کے پاس کھڑا ہے اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا مصروف طواف ہیں ، وہ بی بی کو سلام کرنے کے لئے آگے بڑھا اورپھر بی بی کو سلام کیا ، مگر حضرت فاطمہ زہرا فاطمہ زہراء(س) نے اسکے سلام کا کوئی جواب نہ دیا ، اس پر وہ رونے لگا اور بڑی عاجزی سے کہا :''سیدہ ! میں نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے آپ میرے سلام کا جواب نہیں دیتیں؟
اس کے جواب میں حضرت فاطمہ زہراء(س) نے یہ اشعار پڑھے:
حاشا نبی فاطمہ کلھم من خستہ تعرض اومن خنا
وانما الایام فی غد رہا و فعلھا السوء ا ساء ت بنا
وان اساء من ولدی واحد جعلت کل السب عمداً لنا
فتب الی اللہ فمن یقترف ذنباً بنا یغفر لہ ما جنیٰ
اکرم لعین المصطفیٰ جد ھم و لا تھن من آلہ اعینا
فکلما نالک منہم عنا تلقی بہ فی الحشر منّا ھنا
حاشا و کلاکہ تمام اولاد حضرت فاطمہ زہراء(س) پست اور خراب ہوں ، زمانہ کی گردش نے ہمیںبہت برے دن دکھائے اور ہم سے مکاری کی ہے اگر میری اولاد میں سے ایک نے برائی بھی کی تو تجھے سب کو گالیاں دینے کا حق نہیں تھا ، اپنے اس فعل سے توبہ کر کہ اگر کوئی ہم سے برا سلوک کر کے توبہ کرلے تو اللہ تعالی اسے معاف کر دیتا ہے ، ان کے جد نامدا ر حضرت محمد کی وجہ سے ان کا احترام کر اور ان کی آل میںسے کسی کو مت ستااور کسی کی توہین نہ کر ، آل رسول کی وجہ سے تجھے جو بھی تکلیف پہنچے اس کا بدلہ قیامت کے دن ہم تجھے دیںگے .
ابن عنین کا بیان ہے کہ میں روتا ہوا خواب سے بیدار ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ حضرت فاطمہ زہراء(س) کی برکت سے میرے جسم کے تمام زخم مندمل ہو چکے ہیں اور میرے بدن پر کہیں بھی زخموںکے نشان تک موجود نہیں میں اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا پھر معذرت کے لئے میں نے یہ اشعارکہے :
عذرا الی بنت نبی الھدی تصفح عن ذنب مسیء جنا
و توبۃ تقلبھا من اخی مقا لۃ تو قعہ فی ا لعنا
واللہ لو قطعنی واحد منھم بسیف البغی او بالقنا
لم ا ر ما یفعلہ سیأا بل ارہ فی الفعل قد احبسنا
پیغمبر اکرم(ص) کی صاحبزاد ی کے حضور معذرت خواہ ہوںجو کہ گناہ سے درگزر کرتی ہیں ، اور میں اپنی اس گفتار سے توبہ کرتا ہوںجس کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی ہے ،خدا کی قسم!اب اگر اولاد فاطمہ میں سے اگر کوئی شمشیر ظلم یا نیزے کے ذریعے مجھے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردے تو بھی میں اسے برا نہیں سمجھوں گا بلکہ اسے اچھا کام تصور کروں گا.
حضرت زہرا کے فضائل:
حضرت سیدہ (سلام اللہ علیہا )کساء اور مباہلہ کے افراد میں سے ایک فرد ہیں اسی طرح آپ کا تعلق ان افراد سے ہے جنہوں نے سخت ترین حالات میں ہجرت کی تھی ، اور آ پ ان پاکیزہ ہستیوں میں سے ایک ہیںجن کی طہارت کی گواہی کے لئے اللہ تعالی نے آیت تطہیر نازل کی اور جبرئیل امین نے جن کے ساتھ چادر میں شامل ہونے کو اپنے لئے باعثِ اعزاز تصور کیا ، آپ کا تعلق صادقین کی اس جماعت سے ہے جن کے ساتھ تمسک کی قرآن نے تاکید کی ہے ، اسی طرح آپ گیارہ ائمہ طاہرین کی والدہ ماجدہ ہیں ، اور آپ پیغمبر اکرم(ص) کی وہ یادگار ہیں جس سے اللہ نے نسل رسول کو قیامت تک کے لئے جاری فرمایا اور آپ اولین و آخرین کی سردار ہیں ،آپ گفتار و رفتار میں پیغمبر(ص) خدا کی ہو بہو شبیہ تھیں،آپکا کردار پیغمبر اکرم(ص) کے کردارکا آئینہ تھا آپ کی چال پیغمبر اکرم(ص) کی چال دکھائی دیتی تھی۔
رسول خدا آپ کو آتے ہو ئے دیکھ کر گر مجوشی سے آپ کا استقبا ل کر تے تھے ، آپ کے ہا تھو ں کا بوسہ لیتے تھے اور اپنی مسند پر بٹھایاکرتے تھے .اسی طر ح جب رسول خدا انپی دختر کے ہاں تشر یف لے جا تے تو سید ہ بھی گر مجو شی سے ان کا استقبا ل کر تی تھیں اور ان کے ہا تھوں کے بوسہ لیتی تھیں؛ پیغمبر ا کر م ان سے حد پیا ر کر تے تھے ؛ جب بھی آپ خوشبوئے جنت کے مشتا ق ہو تے تو آ پ سیدہ کے و جو د اطہر کی خو شبو کو سو نگھا کر تے تھے . اور فر مایا کر تے تھے :
''فاطمۃ بضعۃ منی، من سرّہا فقد سرّ نی و من سائہا فقد سائنی''
فا طمہ میر ا ٹکڑا ہے جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے اسے ستا یا اس نے مجھے ستا یا '' فاطمۃ اعزّ الناس الیّ '' تما م لوگوں میں سے فا طمہ مجھے ز یا دہ عز یز ہے اور کبھی کبھی آپ اپنی محبت کا اظہا ر ان الفاظ سے کیا کرتے تھے ، ''یا حبیبۃ ابیہا'' اے انپے والد کی محبوب تر ین شخصیت؛ طبر ی اما می نے اما م محمد با قر سے اورانہوں نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے نقل کیا کہ حضرت فاطمہ نے فر مایا کہ رسول خدا نے ایک دفعہ ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : ''یا حبیبۃ ابیها کل مسکر حرام وکل مسکر خمر'' اے اپنے والد کی محبوب شخصیت ! ہر مدہوش کرنے والی چیز حرام ہے اور ہر مدہوش کرنے والی چیز نشہ آور ہے .
دوستانِ خدا اگر اپنے کسی عزیز یا اپنے کسی بیٹے یا بیٹی سے محبت کرتے ہیں تو ان کی محبت طبعی اور فطری جذبات کی وجہ سے نہیں ہوتی ، مقربان ِخدا کسی سے اگر محبت کرتے ہیں تو بھی اس میں محبت ِ خداوندی کو مدنظررکھتے ہیں ، اسی لئے حضرت یعقوب اپنے تمام بیٹوں میں حضرت یوسف سے زیادہ محبت کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی اولاد میں حضرت یوسف ہی خدا کے محبوب ہیں ، جبکہ حضرت یعقوب کے دوسرے بیٹے اس بات سے کڑھتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہمارے والد خواہ مخواہ یوسف کی محبت میں دیوانے بنے ہوئے ہیں جب کہ ہم زیادہ طاقتور ہیں اور ہم اپنے والد کی قوت بازو ثابت ہو سکتے ہیں ، اسی لئے ہمارے والد کو چاہئے کہ ان حقائق کو پیش نظر رکھیں اور یوسف سے محبت کے بجائے ہم سے محبت کریں.
مرحوم کلینی نے محمد بن سنان سے نقل کیا ہے کہ میں امام محمد تقی کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا میں نے آپ کے سامنے ان اختلافات کا ذکر کیا جو کہ شیعوں میں پیدا ہو چکے تھے ، آپ نے میری بات سننے کے بعد فرمایا ! اے محمد ! خداوند عالم ازل سے وحدہ لا شریک ہے ، پھر اللہ نے محمد ، علی اور فاطمہ کو پیداکیا اور یہ تینوں پاکیزہ نور کئی ہزار سال تک رہے ، پھر خدا نے تمام موجودات کو پیدا کیا اور انہیں اپنی مخلوقات کا گواہ بنایا پھر ان کی اطا عت کو تما م مخلو قا ت میں جا ری فر مایا اور ان کے ا مور کو ان کے حوالے فر مایا ، پس وہ محمد علی و فا طمہ جو چاہتے ہیں حلال کر تے ہیں اور جو چا ہتے ہیں حرام کر تے ہیں البتہ وہ صرف وہی کچھ چاہتے ہیں ،جو خدا چاہتا ہے ۔
پھر امام محمد تقی نے فر مایا ، اے محمد! اصل دین یہی ہے جو اس سے آگے بڑ ھتا ہے وہ گمر اہ ہو تا ہے اور جو کو ئی اس میں سستی کر تا ہے اور پےچھے رہتا ہے وہ ہلا ک ہو جا تا ہے اور جو دین کے سا تھ چلتا ہے اور ہمیشہ اس سے وابستہ رہتا ہے وہ حق کو پا لیتا ہے اے محمد ! اس بات کو یا د رکھو۔
مو لف بیان کرتاہے کہ اس حد یث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء (سلا م اللہ علیہا) ان افر اد میں شامل ہیںکہ جن کے سپردامو ر خلق کئے گئے ہیں اور وہ جو چا ہتے ہیں حلال کر تے ہیں اور جو چاہتے ہیں حرام کرتے ہیں، (مگر یہ واضح رہے کہ وہ صرف وہی کچھ چاہتے ہیں جو خدا چا ہتا ہے اور ان کی ہر خواہش خدا کی مرضی کے تابع ہے)
ائمہ معصومین سے بہت سی ایسی روایات مروی ہیں جن میں بیان کی گیا ہے کہ مصحف ِفاطمہ ائمہ معصومین کے پاس ہے . کتاب بصائر الدرجات میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے : '' حضرت فاطمہ نے ایک مصحف بطور یادگار چھوڑا '' وہ مصحف قرآن نہیں ہے لیکن وہ خدا کے اس کلام پر مشتمل ہے جو اللہ نے فاطمہ پر نازل کیا تھا رسول خدا نے اسے املا کرایا اور حضر ت علی نے اسے لکھا ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میںحاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چا ہتا ہوں کیا یہا ں کو ئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میر ی بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فر ما یا '' ابو محمد '' تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے دروازہ کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار دروزاے کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کا مل اور حقیقی علم ہے ،امام صا دق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کا مل علم نہیں ہے ؛
پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ؛ ہما رے پاس جا معہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمباہے رسول خدا نے اسے املاکیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟
میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس '' جفر '' ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛
ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہا تھو ں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حر ف نہیں ہے ؛
میں نے عر ض کیا ؛ کیایه کا مل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالا ت کا علم موجو د ہے میں نے عر ض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کا مل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسر ی چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا ؛
بہشت میں حضرت زہر ا سلام اللہ علیها کا مرتبہ
چند روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت سید ہ کا شما ران چار افر اد میں ہے جو قیا مت کے دن سوار ہو کر آئیں گے حضرت زہرا سلام اللہ علیها رسول خدا کی اونٹنی '' غضبائ''پر سوار ہو کرمیدان محشر میں داخل ہونگی ، مرحوم ابن آشوب نے روایت کی ہے کہ جب پیامبر اکرم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کی اونٹنی نے عرض کیا کہ آپ اپنے بعد کس سے میرے بارے میں وصیت کر رہے ہیں ؟ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ! ''غضباء : خدا تجھے برکت دے گا ،میرے بعد تو میری بیٹی فاطمہ کی ملکیت میں چلی جائے گی ، وہ دنیا و آخرت میں تجھ پر سواری کرے گی ''
پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد رات کو وہ اونٹنی حضرت سیدہ کے دروازے پر آئی اور کہا : دختر رسول آپ پر سلام ؛ دنیا سے میری روانگی کا وقت قریب آچکا ہے خدا کی قسم !رسول اکرم کی رحلت کے بعد میں نے نہ تو گھاس کھایا اور نہ ہی پانی پیا ہے ، پھر وہ اونٹنی وفات رسول کے تین دن بعدمرگئی .
فرات بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امیرالمؤمنین نے فرمایا : ایک دن رسول خدا ، فاطمہ کے پاس تشریف فرما تھے اور اس وقت فاطمہ کچھ غمگین تھیں ، رسول خدا نے قیامت کے حالات کے متعلق کچھ مطالب بیان فرمائے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا ! فاطمہ جب تم جنت میں پہونچو گی تو ایسی بارہ ہزار حوریں تم سے ملاقات کریں گی جنہوں نے تم سے پہلے کسی سے ملاقات نہیں کی ہوگی اور تمہاری ملاقات کے بعد وہ کسی سے بھی ملاقات نہ کریں گی۔ ان کے ہاتھوں میں نور کے ہتھیار ہوں گے ۔ وہ نورانی اونٹوں پر سوار ہوں گی ۔ان کی اونٹوں کے پالان زرد سونے اور سرخ یاقو ت سے بنے ہوئے ہونگے اور ان کی مہار تازہ مرواریدکی ہوں گی ، ہر ناقہ پر سندس کی چادر ہوگی جس میں آبدار جواہر ٹکے ہوئے ہوں گے جب تم بہشت میں داخل ہوگی تو اہل بہشت تمہاری وہاں آمد سے خوش ہونگے اورتمہارے شیعوں کے لئے ایک مخصوص دسترخوان جو کہ نور کی کرسی پر رکھا ہوگا لایا جائے گا اور وہ اس غذا سے تناول کریں گے ۔ جب کہ باقی لوگ ابھی تک حساب و کتاب کے مراحل طے کر رہے ہوں گے اورتمہارے شیعوں کے لئے وہ سب کچھ مو جود ہوگا جس کی وہ خواہش کریں گے ۔ جب خدا کے تمام اولیاء بہشت میںداخل ہو جائیں گے تو حضرت آدم تمہاری زیارت کے لئے آ ئیں گے اور ان کے بعد دوسرے انبیاء بھی تمہاری زیارت کے لئے آئیں گے .
جناب فاطمہ کی گفتگو سے قلبِ رسول کی تسکین
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا بیان ہے کہ جب سورہئ نور کی یہ آیت نازل ہوئی
(لا تجعلوا دعا ء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا) نور۔٦٣.
مسلمانو! خبردار رسول کو اس طرح نہ پکارا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ،
تو میں اپنے والد محترم کو ''یارسول اللہ '' کہہ کر پکارنے لگی ، لیکن آنحضرت میری زبان سے ''یارسول اللہ '' کے بجائے ''یا ابتِ '' سننے کے مشتاق تھے ، تین بار میں نے انہیں ''یارسول اللہ '' کہہ کر مخاطب کیا آپ نے کچھ نہ کہا اور جب میں نے چوتھی بار انہیں ''یارسول اللہ '' کہہ کر مخاطب کیا تو آپ نے میری طرف رخ انور کر کے فرمایا !
یا فاطمہ ! انّھا لم تنزل فیک ، و لا فی اھلک و لا نسلک ، وانت منّی و انا منک ، انمّانزلت فی اھل الجفاء و الغلظۃ من قریش ، اصحاب البذخ والکبر .
اے فاطمہ ! یہ آیت تمہارے اورتمہاری آل اور تمہاری نسل کے لئے نازل نہیں ہوئی تم مجھ سے ہواور میں تم سے ہوں ۔ یہ آیت قریش کے بے انصاف اور بدزبان متکبر اور خود پسند افراد کے لئے نازل ہوئی ہے ،
پھر آپ نے فرمایا: قولی لی یا ابہ ! فانہااحےیٰ للقلب ، وارضیٰ للرّبّ .
تم مجھے ابا جان کہہ کر پکارا کر تمہارا ابا جان کہہ کر پکارنا میرے دل کو زیادہ زندہ رکھنے والا اور خدا کو زیادہ راضی کرنے والا ہے .
مصباح الانوار میں امیرالمؤمنین سے روایت ہے کہ فاطمہ زہراء(س) نے کہا کہ رسول خدا نے ان سے فرمایا
من صلّی علیک ِغفر اللہ لہ و الحقہ بی حیث کنت من الجنۃ جو کوئی بھی تمہارے او پر درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے گا اور جنت میں اسے مجھ سے ملحق فرمائے گا .
جناب فاطمہ کی بھوک اور پیغمبر اکرم(ص) کی دعا
ثقۃ الاسلام کلینی کے مطابق امام محمد باقر نے جناب جابر سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول خدا اپنے گھر سے حضرت فاطمہ سے ملاقات کرنے کی غرض سے روانہ ہو ئے، میں آنحضرت کے ساتھ تھا ؛ جب حضرت فاطمہ کے دروازے پر پہنچے تو آپ دروازے پر رک گئے اور دستک دی پھر کہا ؛ السلام علیکم؛جو اب میں حضرت فاطمہ نے بھی سلام کیا۔رسول خدا نے فرمایا : کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ حضرت فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اندر آجائیں پھر رسول خدا نے فرمایا : کیا میں اور جو میرے ساتھ ہے ہم دونوں اندر آسکتے ہیں ؟ حضرت فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ میرے پاس مقنعہ اور چادر نہیں ہے
رسول خدا نے فرمایا :اپنی چادر کے پلو سے اپنے سر کو ڈھانپ لو ۔ حضرت فاطمہ نے چادر کے پلو سے اپنے سر کو ڈھانپ لیا ، پھر رسول خدا نے انہیں سلام کہا اور بی بی نے سلام کا جواب دیا ، پیغمبر اکرم(ص) نے داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو بی بی نے کہا : اب آپ اندر تشریف لائےے ر سول خدا نے فرمایا : کیا میں اور جو میرے ساتھ ہے ہم دونوں اندر آسکتے ہیں ، حضرت فاطمہ نے فرمایا ! جی ہاں آپ دونوں اندر آ سکتے ہیں ، جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا گھر میں داخل ہوئے اور ان کے پیچھے میں بھی گھر میں داخل ہوا ، اچانک میں نے محسوس کیا کہ فاطمہ زہراء(س) کا چہرا زرد ہوگیاہے پیغمبر اکرم(ص) نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی توحضرت فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ بھوک کی سختی سے یہ حالت ہوگئی ہے اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے دعا مانگی کہ اے وہ ذات جو بھوکوں کو سیر کرتی ہے اور کمیوں کوپورا کرتی ہے فاطمہ کو سیر فرما .
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی جناب سیدہ کے پاس آئے اور فرمایا : فاطمہ کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے جس سے میں اپنی بھوک دور کر سکوں؟ بی بی نے عرض کیا :اس خدا کی قسم جس نے میرے والد کو نبوت کے مقام سے سرفراز کیا اور آپ کو مقام وصایت عطا کیا میرے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ دو دن سے میں نے اور میرے بچوں نے کچھ نہیں کھایا ، البتہ پچھلے دو دنوں میں تھوڑی سی غذا موجود تھی جسے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتی رہی اور خود میں اور حسنین فاقہ کرتے رہے ، حضرت علی نے فرمایا :تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی تا کہ میں کھانے کا کوئی بندوبست کرتا ؟
بی بی نے فرمایا :''یا اباالحسن انّی لا ۤستحیی من الہی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ ''
اے ابوالحسن! مجھے اپنے خدا سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میں آپ سے ایسا مطالبہ کروں جو کہ آپ کے بس سے باہر ہوـ
کتاب قرب الاسنادمیں امام جعفر صادق سے منقول ہے ۔آپ نے فرمایا کہ امام محمد باقر نے فرمایا: حضرت علی اور حضرت سیدہ نے رسول خدا سے گھر کے کاموں کی تقسیم کرنے کے لئے درخواست کی تو رسول خدا نے گھر کے اندرکے کام حضرت فاطمہ کے سپرد کئے اور گھر سے باہر کے کام حضرت علی کے سپرد کئے ، بی بی فرماتی تھیں کہ خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ اس تقسیم کار سے میں کتنی خوش ہوئی تھی کیونکہ رسول خدا نے مجھے گھر سے باہر کے کاموں سے آزاد کردیا .
فرشتے جناب زہرا کی خدمت میں
قطب راوندی نے کتاب الخرائج میں جناب سلمان فارسی سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت فاطمہ کے گھر میں تھا ، میں نے دیکھا کہ بی بی چکی پیس رہی ہیں اور جو کا آٹا تیار کر رہی ہیں ، میں نے چکی کے دستے کو دیکھا تو مجھے خون آلود نظر آیا ۔ امام حسین جو کہ اس وقت طفل شیر خوار تھے وہ بھوک کی وجہ سے بلک رہے تھے ۔ میں نے عرض کی : بی بی ! آپ اتنی زحمت کیوں اٹھا رہی ہیں جب کہ آپ کے پاس خادمہ فضہ موجود ہے ؟ حضرت فاطمہ نے فرمایا : رسول خدا نے مجھے نصےحت کی تھی کہ گھر کے کام ایک دن میں کروں اور ایک دن فضّہ کرے ، فضّہ نے کل کام کیا تھا اور آج میری باری ہے ، سلمان یہ سن کر عرض کرتے ہیں کہ بی بی میں بھی تو آپ کا غلام ہوں ۔ میں آپ کی خدمت کے لئے آمادہ ہوں ، آپ چاہیں تو میں آپ کے بجائے چکی پیسنے کو تیار ہوں اور اگر آپ چکی پیسنا چاہیں تو میں حسین کو اٹھاتا ہوں ۔ بی بی نے فرمایا : میں حسین کی بہتر طور پر نگہداشت کر سکتی ہوں ۔ میں حسین کو اٹھاتی ہوں اور تم چکی چلاؤ۔ سلمان کہتے ہیں کہ میں نے کچھ دیر تک چکی چلائی اور جو کا آٹا پیستا رہا پھر اذان کی آواز سن کر میں نماز کے لئے مسجد کی طرف چلا آیا ، رسول اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی ، نماز کے بعد میں نے حضرت علی کو ماجرا سنایا ، حضرت علی یہ ماجر اسن کر رودئےے اور مسجدسے اٹھ کر چلے گئے ، تھوڑی ہی دیر بعد علی مسکراتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے، رسول خدا نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : میں فاطمہ کے پاس گیا اور وہاں جا کر دیکھا کہ فاطمہ سوئی ہوئی ہے اور حسین اس کے سینے پر سو رہا ہے اور چکی خود بخود چل رہی ہے یہ سن کر رسول خدا مسکرائے اور فرمایا! یا علی اما علمت انّ للہ ملائکۃ سیارۃ فی الارض یخدمون محمد وآل محمد الی ان تقوم الساعۃ اے علی ! کیا تمہیں نہیں معلوم ،کہ اللہ کے کچھ فرشتے زمین پرگردش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ محمد وآل محمد کی خدمت کریں ، اور وہ روز قیامت تک محمد وآل محمد کی خدمت کرتے رہیں گے .
روایت میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن پیامبر اکرم حضرت علی کے گھر تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ علی و فاطمہ دونوں مل کر چکی چلارہے ہیں تو پیامبر نے بی بی سے فرمایا :بیٹی اٹھو۔ سیدہ اٹھیں تو پیامبر اکرم ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور چکی چلانے میں علی کی مدد کرنے لگے .
غذائے زہرا کی برکت :
بعض کتبِ مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری سے یہ روایت ہے کہ چند دنوں سے رسول خدا مسلسل فاقے کر رہے تھے۔ آپ نے اپنی ازواج سے غذا طلب کی تو کسی بھی زوجہ کے گھر میں کھانا موجود نہ تھا ، پھر آپ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے اور ان سے فرمایا :کہ میں کئی روز سے بھوکا ہوں اگر تمھارے پاس کوئی طعام ہے تو مجھے بھی کھلاؤ۔
حضرت فاطمہ نے عرض کی : میں آپ پر قربان ہوجاؤںمیرے گھر میں بھی فاقہ ہے اور ہمارے پاس کھانے کی چیز موجود نہیں ہے ؛ یہ جواب سن کررسول اکرم واپس تشریف لے گئے اسی اثناء میں کسی ہمسائے نے دو روٹیاں اور گوشت حضرت سیدہ کے گھر میں بطور ہدیہ بھیجا ، حضرت زہرا نے اس ہدیہ کو قبول فرمایا اور ایک برتن میں وہ غذا رکھ کر اسکے اوپر کپڑا ڈالا اور فرمایا : میں رسول خدا کو اپنی ذات اور اپنے تمام اہل خانہ پر مقدم رکھوں گی ، پھر آپ نے حسنین کو رسول خدا کے پاس بھیجا اور انہیں دعوت دی ، رسولخدا تشریف لائے تو بی بی نے تمام واقعہ بیان کیا پیامبر اکرم نے فرمایا : وہ برتن میرے قریب لاؤ ۔ جب برتن آپ کے سامنے رکھا گیا تو آپ نے اس کے اوپر سے کپڑا اٹھایا تو وہ برتن روٹیوں اور گوشت سے لبریز دکھائی دیا. جابر کہتے ہیں کہ جب میں نے کھانے پر نظر کی تو مجھے تعجب ہوا اور میں نے جان لیا کہ یہ نبوت کا ایک معجزہ ہے ، میں نے خدا کی حمد و ثنا کی اور پیامبر پر درود بھیجا ، رسول خدا نے اپنی بیٹی سے فرمایا : یہ غذا کہاں سے آئی ہے ؟بی بی نے عرض کی : اللہ کی طرف سے یہ غذا آئی ہے ، یقینا خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے .
رسول خدا نے ایک شخص کو حضرت علی کے بلانے کے لئے روانہ کیا ۔ تھوڑی دیر میں علی آئے ، پھر رسول خدا اور حضرت علی و حضرت فاطمہ اور حسنین نے وہ غذا تناول کی پھر آپ نے اپنی تمام ازواج کے گھروں میں وہ کھانا بھیجا سب نے سیر ہو کر کھایا لیکن وہ برتن بدستور کھانے سے بھرا رہا ؛ حضرت فاطمہ نے فرمایا !کہ میں نے وہ غذا اپنے ہمسایوں کے گھروں میں بھیجی ، خداوند عالم نے اس غذا میں اس طرح برکت پیدا کردی تھی جیسا کہ جناب مریم کے لئے برکت نازل فرمائی تھی.
عبادت حضرت زہرا :
حسن بصری کاقول ہے کہ امت میں فاطمہ سے بڑا کوئی عا بد نہیں گزرا ۔ آپ اتنی عبادت کرتی تھیں کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتے تھے رسول اکرم نے ایک بار حضرت فاطمہ سے پوچھا : عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے ؟ بی بی نے جواب میں عرض کیا کہ : ان لا تری رجلا و لا یراھا رجل وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اس کو دیکھے .
پیغمبر اکرم(ص) نے جیسے ہی اپنی دختر کا یہ جواب سنا تو آپ نے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور یہ آیت پڑھی '' ذریۃ بعضھا من بعض ''وہ ایک ایسا خاندان ہے جو [ فضیلت میں]ایک دوسرے سے تھے ۔آل عمران۔٣٤.
حضرت امام حسن کا بیان ہے کہ ایک شبِ جمعہ میں نے اپنی والدہئ ماجدہ کو محراب عبادت میں دیکھا ، وہ تمام رات رکوع و سجود میں مصروف رہیں، یہاں تک کہ سفیدی سحر نمو دار ہوئی اس دوران میری والدہ مؤمنین ومؤمنات کے نام لے کر ان کے حق میں دعا کرتی رہیں مگر انہوں نے اپنے لئے کوئی دعا نہ کی ۔ میں نے کہا اماں جان ! آپ نے اپنے لئے دعا نہیں مانگی ؟بی بی نے فرمایا : یا بُنیّ الجار ثم ّ الدار ؛ بیٹا پہلے ہمسائے پھر اپنا گھر .
شیخ صدوق بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا سے سنا ۔''روز جمعہ ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس میں جو بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول کرتا ہے اور اس کی حاجت قبول فرماتا ہے '' ، میں نے پوچھا :کہ وہ کون سی گھڑی ہے ؟ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا : جس وقت سورج آدھا غروب ہو چکا ہواور آدھا ظاہر ہو ۔حضرت فاطمہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ چھت پر چڑھ جاؤ اور جب دیکھو کہ سورج افق مغرب میں آدھا ڈوب جائے تو مجھے اطلاع کرنا میں اس وقت خدا سے دعا مانگوں گی ۔
روایات میں ہے کہ جب بی بی محراب عبادت میں مصروف عبادت ہوتی تھیں تو آپ کا نور اہل آسمان کے لئے اس طرح جگمگاتاتھا جیسے ستاروں کا نور زمین والوں کے لئے جگمگاتا ہے .
کنیز کا مطالبہ:
شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے بنی سعد کے ایک شخص سے فرمایا : کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھے فاطمہ کے بارے میں کچھ سناؤں؟ آپ نے فرمایا حضرت فاطمہ اگر چہ رسول خدا کی محبوب ترین شخصیت تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اس قدر مشک اٹھائی تھی کہ ان کے سینے پر مشک کے نشان پڑ چکے تھے اور انہوں نے اتنی بار جھاڑو دی کہ ان کے کپڑے غبار آلود ہو گئے اور انہوں نے چولہے میں اس قدر آگ جلائی کہ ان کے کپڑوں کی رنگت دھوئیں سے تبدیل ہو گئی ۔ الغرض انہوں نے میرے گھر میں رہ کر بڑی تکلیفیں برداشت کی ۔ میں نے ان سے کہا : آپ اپنے والد کے پاس جا کر ایک کنیز کا مطالبہ کریں جو کہ آپ کے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹا سکے تو یہ بہتر ہوگا ، حضرت فاطمہ اپنے والد کے پاس گئیں ، وہاں انہوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ وہ کچھ کہے بغیر واپس آگئیں . رسول خدا نے محسوس کیا کہ فاطمہ کسی ضرورت کی وجہ سے آئیں تھیں لیکن اپنی ضرورت بیان کئے بغیر واپس چلی گئیں ، پھر دوسرے دن پیغمبر(ص) صبح کو ہمارے گھر تشریف لائے اور اپنی عادت کے مطابق پہلے سلام کیا ، میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا '' یا رسول اللہ !آپ پر سلام ہو ، حضور تشریف لے آئے اور ہمارے قریب آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :فاطمہ ! کل تم میرے پاس آئی تھیں ، بتاؤتمہیں کیا ضرورت در پیش تھی ؟ فاطمہ نے حیا کی وجہ سے کچھ نہ کہا ، مجھے خوف محسوس ہوا کہ اگرمیں نے جواب نہ دیا تو آنحضرت واپس چلے جا ئیں گے ۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ میں آپ کو بتاتا ہوں ، فاطمہ نے اتنا پانی بھرا کہ ان کے سینے پر مشک کے داغ پڑ گئے ہیں اور اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھو ں پر آبلے پڑ گئے اور انہوں نے اتنی جھاڑ ودی کہ ان کا لباس غبار آلود ہوگیا اور انہوں نے اتنا چولہا جلایا کہ ان کے کپڑوں کی رنگت بدل گئی ، لہذا میں نے ان سے کہا کہ تم اپنے لئے ایک کنیز طلب کرو تا کہ تمہیں امور خانہ داری میں سہولت ہو جائے یہ سن کر پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :کیا تم چاہو گے کہ میں تم کو ایسی چیز کی تعلیم دوں جو تمہارے لئے کنیز سے بہتر ہوں ؟ اور وہ یہ ہے کہ جب تم سونے کے لئے بستر پر جاؤ تو ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ، ٣٣ مرتبہ الحمدللہ ، اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہو ۔ اس وقت فاطمہ زہراء(س) نے سر بلند کیا۔ اور تین بار کہا '' رضیت عن اللہ و رسولہ '' میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوں .
کتابِ مناقب میں ابوبکر شیرازی (جو کہ ایک سنی عالم ہیں )سے منقول ہے کہ جب حضرت زہرا نے اپنا حال پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں بیان کیا اور ان سے کنیز کا تقاضا کیا تو پیغمبر اکرم(ص) رو پڑے اور اس وقت آپ نے فرمایا :فاطمہ !مجھے اس خدا کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ، اس وقت مسجد میں چار سو ایسے افراد ( اصحاب صفہ) موجود ہیں جن کے پاس کھانے کے لئے غذا موجود نہیں ہے اور پہننے کے لئے لباس موجود نہیں ہے ۔اگر مجھے تمہاری فضیلت کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں تمہاری درخواست ضرور قبول کرتا ، اے فاطمہ !میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہارا اجر و ثواب تم سے جدا ہوجائے اور تمہارے بجائے تمہاری کنیز کو نصیب ہو .
تفسیر ثعلبی میں امام محمد باقر سے اور تفسیر قشیری میں جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت فاطمہ کو موٹا اون کا لباس پہنے ہوئے دیکھا ۔ وہ چکی چلا رہی تھیں ، اور اسی وقت اپنے ایک بچے کو دودھ بھی پلا رہی تھیں ، یہ منظر دیکھ کر آنحضرت کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور فرمایا : ''یابنتاہ تعجلی مرارۃ الدنیا بحلاوۃ الآخرۃ '' پیاری بیٹی !آج آخرت کی حلاوت کے لئے دنیا کی تلخی کو برداشت کرلو ۔ بی بی نے یہ سن کر کہا : '' یا رسول اللہ الحمد للہ علیٰ نعمائہ و الشکر علیٰ الائہ ''
یا رسول اللہ ! اللہ کی نعمتوں پر حمد اور اس کی عطا پر اس کا شکر ہے .
حضرت فاطمہ کی کنیز کا تکلم بالقرآن:
ابوالقاسم قشیری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ کی کنیز حضرت فضّہ سفر حج میں اپنے کاروان سے بچھڑ گئیں اور انہیں بیابان میں تنہا سفر کر نا پڑ ا، عبداللہ بن مبارک جو کہ ان کی طرح قافلے سے الگ ہوگئے تھے ، اتفاق سے انہیں حضرت فضّہ نظر آئیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے بیابان میں ایک خاتون کو دیکھا ، تو میں نے ان سے کہا کہ تم کون ہو ؟ حضرت فضہ : ۔و قل سلام فسوف یعلمون۔زخرف ۔٨٩ '' سلام کہو پھر عنقریب وہ جان لیں گے''، اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ سلام کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔
عبداللہ نے خاتو ن کو سلام کیا اور پوچھا : آپ بیابان میں کیا کر رہی ہیں ؟اور کیا آپ کو بھٹکنے کا اندیشہ نہیں ہے ؟
حضرت فضہ : و من یھد اللہ فما لہ من مضل، زمر۔٣٧جسے خدا ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون کا خدا پر گہرا یقین ہے ۔ میں نے پوچھا کہ آ پکا تعلق انسانوں سے ہے یا جنا ت سے ہے ؟
حضرت فضہ : یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد ، اعراف ۔٣١، اے بنی آدم !ہر نماز کے وقت زینت کرو، اس آیت سے میں نے سمجھاکہ خاتون کا تعلق بنی آدم سے ہے ،میں نے پوچھا : آپ کہاں سے آرہی ہے ؟حضرت فضہ : ینادون من مکان بعید: (فصلت۔٤٤)انہیں دور دراز مقام سے بلایا جاتا ہے ، اس آیت سے میں سمجھ گیا کہ خاتون کسی دوردراز مقام سے آرہی ہیں ِ ، میں نے پوچھا : آپ کس شہر سے آ رہی ہیں ؟ حضرت فضہ کہتی ہیں : یا اھل یثرب لا مقام لکم (احزاب ۔١٣)''اے اہل یثرب تمہارا ٹھکانہ کہیں نہیں ہے''۔ اس آیت سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ خاتون مدینہ سے آ رہی ہے ، میں نے پوچھا کہ آپ کہاں جانا چاہتی ہیں ؟حضرت فضہ : وللہ علیٰ الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (آل عمران ۔٩٧)جو حج کی استطاعت رکھتا ہو اس پر حج واجب ہے ۔ اس آیت سے مجھے پتہ چلا کہ حج کرنے جارہی ہیں ، میں نے پوچھا کہ آپ کو کاروان سے بچھڑے ہوئے کتنے دن ہوئے ہیں ؟حضرت فضہ : و لقد خلقناالسموات و الارض فی ستۃ ایام (ق۔٣٨)بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ اس خاتون کو قافلے سے جدا ہوئے چھ دن ہوئے ہیں ، میں نے پوچھا کہ کیا آپ اس وقت کچھ کھانا پسند کریں گی ؟حضرت فضہ : وماجعلناہم جسداًالا یاکلون الطعام (انبیائ۔٨)اور ہم نے انہیں ایسے جسم نہیں دیئے کہ وہ طعام نہ کھاتے ہوں ، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون کھانا کھانا چاہتی ہیں میں نے انہیں کھانا کھلایااور پھر ان سے کہا کہ جلدی کریں اور تیز تیز قدم بڑھائیں۔ حضرت فضہ :لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا (بقرہ۔٢٨٦)اللہ کسی بھی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون تھک چکی ہیں اور ان میں زیادہ تیزچلنے کی سکت نہیں ہے ، میں نے اس سے کہا کہ آپ میرے ساتھ اونٹ پر سوار ہوجائیں، خاتون :لو کان فےھماآلھۃ الا اللہ لفسد تا . ( انبیا ٢٢ ) اگر زمین وآسمان میں زیا دہ خدا ہوتے تو زمین وآسمان تباہ ہو جاتے اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ خاتوں میرے ساتھ سوار ہونا پسند نہیں کر تیںپھر میں اونٹ سے اترااور انہیں اکیلا سوار کیا ، جب وہ اونٹ پر بیٹھ گئیں تو انہو ں نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی : سبحان الذی سخر لناھذا و ما کنا لہ مقرنین (زخرف۔١٣) پاک وبے نیاز ہے وہ خداجس نے اس سو اری کو ہمارے لئے مسخر کر دیا ہے ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں لا سکتے تھے پھر ہم چلتے ہو ئے کاروان سے جا ملے تو میں نے پوچھا کہ اس قافلہ میں تمہاراکوئی رشتہ دار بھی موجود ہے خاتون نے جواب میں یہ آیات پڑھی :یا داؤد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض (ص۔٢٦) ا ے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، ۔ومامحمد الا رسول (آل عمران۔١٤٤)اور محمد بس رسول ہیں ۔ یا ےحےیٰ خذالکتاب بقوۃ(مریم۔١٢)،اے ےحییٰ!کتاب کو مضبوطی سے تھامو،۔یاموسیٰ انّی انا اللہ (اے موسیٰ بے شک میں اللہ ہوں )(قصص۔٣٠) چنانچہ میں نے داؤد، محمد ،ےحی ٰاور موسیٰ کو پکارا تو چار جوان اس قافلہ سے نکل کر خاتون کے پاس آئے ، پھر میں نے اس خاتون سے پوچھا کہ یہ جوان آپ کے کیا لگتے ہیں ؟ خاتون نے کہا: المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا (الکہف۔٤٦) ما ل ا ور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہے ، س آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ خاتون ان جوانوں کی والدہ ہیں ، پھر اس خاتون نے اپنے بچوں کو صدا دے کر فرمایا:یا ابت استأجرہ ان خیر من استأجرت القوی الامین (القصص٢٦)یعنی ابا جان آپ اس کو اجرت دیں کیونکہ آپ جسے اجرت دینگے وہ قوی اور امین ہے ،اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون اپنے بیٹوں کو حکم دے رہی ہیں کہ مجھے اس زحمت پر اجرت دیں ، چنانچہ ان نو جوانوں نے کچھ رقم میرے حوالے کی تو ان کی والدہ نے کہا : واللہ ےضاعف لمن یشاء اللہ جس کے لئے چاہتا ہے بڑھاتا ہے (بقرہ ٢٦١) اس آیت سے میں نے اندازہ لگایاکہ خاتون اپنے بچوں کو اس رقم سے دوگنی رقم دینے کا کہہ رہی ہیں ، چنانچہ ان نوجوانوں نے مجھے زیادہ رقم دی ، جب میں ان سے جدا ہونے لگا تو میں نے ان سے پوچھاکہ یہ خاتون کون ہیں ؟ ان نوجوانوں نے مجھے بتایاکہ یہ ہماری والدہ فضّہ ہیں جو کنیز زہرا ہیں اور بیس سال سے قرآن کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتی ہیں .
حضرت فاطمہ اور ان کے شیعوں کا مقام :
ابوجعفر طبری نے کتاب بشارۃ المصطفیٰ میں ھمام ابی علی سے روایت کی ہے کہ میں نے کعب الاحبا ر سے کہا ؛ تم شیعا ن علی بن ابی طالب کے متعلق کیا نظر یه رکھتے ہو ؟ اس نے جواب میں کہا ؛ اے ہمام ، میں نے ان کی صفات قرآن مجید میں پڑھی ہیں وہ خدا کا گر وہ اور خدا کے دین کے مد د گار اور خدا کے ولی کے پیر و ہیں وہ خدا کے خاص اور محترم بند ے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں انپے دین کے لئے چن لیا ہے اور انہیں بہشت بر یںکے لئے پیدا کیا ہے وہ جنت الفردوس کے بلند وبالا محلات میںہوں گے وہ ایسے مکا نات میں رہا ئش پذیر ہو ںگے جو کہ مر وار ید( موتیوں)سے بنے ہوئے ہوں گے وہ مقر بان ابرار میں ہوں گے اور سر بمہر شراب طہو ر نوش کر یں گے اس شراب کا تعلق جنت کے اس چشمہ سے ہو گا جسے تسنیم کہا جاتا ہے اور وہ ان کے لئے مخصوص ہوگا یہ وہ چشمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دختر اور حضرت علی کی زوجہ فاطمہ زہراء(س) کو عطا کیا ہے ، یہ چشمہ ایک ستون سے جاری ہوگا کہ جس ستون کا قبہ ٹھنڈک میں کافور ، ذائقہ میں زنجبیل اور خوشبو میں مشک کی طرح سے ہوگا ، پھراس چشمہ کا پانی چھوٹی چھوٹی نہروں میں بہتا ہوگا ، حضرت فاطمہ کے محبین اور ان کے شیعہ اس سے پانی پئیں گے ، اس قبہ کے چار ستون ہوں گے اس کا ایک ستون مروارید کا ہوگا اور اس سے ''طہور'' نامی چشمہ جاری ہوگا ، اس قبہ کا ایک اور ستون سبز زمرد کا ہوگا اور اس سے دو چشمے (شراب طہور، شہد) جاری ہونگے ، پھر یہ چشمے جنت میں نےچے کی طرف بہیں گے ، لیکن تسنیم کا پانی جنت کے زیریں طبقہ میں نہیں بہے گا ، اس کا پانی صرف جنت کے بلند و بالا حصے تک ہی محدود رہے گا ،جس کو صرف خاص بہشتی ہی پینے کی سعادت حاصل کریں گے اور وہ خوش نصیب صرف شیعیان اور محبانِ علی ہی ہوں گے ،قرآن مجید کی ان آیات کی یہی تفسیر ہے ، یسقون من رحیق مختوم ۔ختامہ مسک وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون۔ ومزاجہ من تسنیم۔عیناً یشرب بھاالمقربون(مطففین٢٥ تا٢٨)انہیں سر بمہر خالص شراب سے سیراب کیا جائے گا ، جس کی مہر مشک کی ہوگی اور ایسی چیزوں میں شوق کرنے والوں کو آپس میں سبقت اور رغبت کرنی چاہئے،اس شراب میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی،یہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب بارگاہ بندے پیتے ہیں .پھر کعب الاحبارنے کہا خدا کی قسم شیعوں سے صرف وہ شخص ہی محبت کرتا ہے جس سے اللہ نے عہد ومیثاق لیا ہو اس روایت کے بعد ابو جعفر طری لکھتے ہیں شیعو ں کو چاہئے کہ وہ اس حد یث کو آب زر سے تحر یر کر یں اور اسکی زیادہ سے زیادہ نقو ل تیار کریں تا کہ جنت الفردوس کے وبالا محلا ت کے وارث قرار پائیں . چو نکہ یہ روایت اہل سنت سے نقل کی گئی ہے اسی لئے مخالفین اسے شیعو ں کی خود سا ختہ روایت کہہ کر سکتے پس یه حد یث شیعو ں کے مخا لفین پر ایک حجت ہے۔
حضرت سلمان کے سوال کا جواب
طبری بشارۃ المصطفی میں کتاب کنز کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ابوذر نے کہا: سلما ن اوربلال حبشی کو میں نے دیکھا کہ وہ پیغمبر اکرم(ص) کے حضو ر میں آرہے تھے کہ اچا نک سلمان آگے بڑھے اور رسول خدا کے قدموں میں گرکر آپ کے قدموں کو بو سہ دیا پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں اس سے منع کرتے ہو ئے فرمایا'' سلمان جو کام اہل عجم اپنے بادشاہوں کے لئے کرتے ہیں تم میر ے لئے وہ کام مت کرو میں خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں اور بندوں کی طرح کھانا کھا تا ہوں اور انہیں کی طرح بیٹھتا ہوں حضرت سلمان نے خدمت پیغمبر(ص) میں عرض کیا یا رسول اللہ: میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن حضرت زہرا کو جو مقام حاصل ہوگا آپ مجھے اس سے مطلع فرمائیں پیغمبر اکرم(ص) نے مسکرا کر سلمان کی طرف دیکھا اور فرمایا اس خدا کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے فاطمہ وہ خاتون ہے جو اونٹ پر سوار ہوکر میدان حشرکو عبو ر کرے گی اس کی سواری کا سر خوف خدا سے جھکا ہوا اور آنکھیں نور خدا سے منو رہوں گی فضائل جناب سیدہ بیان کرتے ہوئے رسول خدا نے مزید فرمایا !جبرئیل اس اونٹ کی دائیںجانب اور میکا ئیل اس کی بائیں جانب اور علی اس کے آگے آگے اور حسن وحسین اسکے پیچھے پیچھے چلیں گے خدا وند عالم اس کا محا فط ونگہبا ن ہوگا یهاںتک کہ وہ صحن محشر کو عبور کر نے لگیں گے۔ ان لمحات میں خداوندعالم کی طرف سے نداآئے گی: اے تمام مخلوقات !اپنی آنکھیں بند کرو اور انپے سروں کو جھکالو کیو نکہ اب تمہارے پیغمبر(ص) کی بٹےی اور تمہا رے امام علی کی زوجہ اور حسن وحسین کی والدہ فاطمہ پل صراط سے گزر رہی ہیں اس وقت فاطمہ کے سر پر دو صاف اورشفاف سفید چادریں ہوں گی اور جب فاطمہ جنت میں پہنچ جائیں گی اور اللہ تعا لی کی ان نعمات کوملا حظہ کریں گی جو خدا نے ان کیلئے آمادہ کی ہیں تو وہ کہیں گی :''بسم اللہ الرحمن الرحیم۔الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور ۔الذی احلنا دار المقامۃ من فضلہ لا یمسنا فیہا نصب و لا یمسنا فیہا لغوب'' ہر قسم کی تعریف اللہ کیلئے مخصوص ہے جس نے ہم سے رنج وغم کو دور کیا بیشک ہمارا پرورردگار بہت زیادہ بخشنے والا اور قدردان ہے اس نے انپے فضل وکرم سے ہمیں رہنے کی ایسی جگہ پرپہونچادیا ہے جہاں نہ کوئی تھکن ہم کو چھوسکتی ہے اور نہ کوئی تکلیف ہم تک پہنچ سکتی ہے پھر اللہ تعالیٰ فاطمہ کی طرف یہ وحی کرے گا:اے فاطمہ تو جو چاہے مجھ سے سوال کر میں تجھے عطا کروں گا اور تجھے راضی کروں گا اس وقت فاطمہ بار گاہ احدیت میں عرض کریں گی '' خدا یا!تو ہی میری امید ہے بلکہ میری امید سے بھی بلند و بالاہے میں تیری بارگاہ میں یہ سوال کرتی ہوں کہ میرے محبوں اور میری اولاد کے محبوں کو آتش دوزخ میں عذاب نہ دینا '' اللہ تعالیٰ وحی کرے گا : ''اے فاطمہ !مجھے اپنی عزّت و جلال کی قسم !زمین و آسمانوں کی خلقت سے دو ہزار سال قبل میں اپنے ساتھ یہ قسم کھا چکا ہوںکہ میں تجھ سے محبت کرنے والوں کو اورتیری اولاد سے محبت کرنے والوں کوآگ میں عذاب نہیں دوں گا.
زہدِ فاطمہ کی ایک جھلک:
سید ابن طاؤس نے ابو جعفر احمد قمی کی کتاب ''زہدالنبی'' سے یہ اقتباس کیا ہے ، جب سورہ حجر کی یہ دو آیتیں نازل ہوئیں۔اور جہنم ایسے تمام لوگوںکی و عدہ گاہ ہے اس کے سات دروازے ہیں اور ہر درواز ے کے لئے ایک حصہ تقسم کردیا گیا ہے ( الحجر . ٤٣ .٤٤) یه آیات سن کر پیغمبر اکرم(ص) بہت زیاہ روئے آنحضرت کو روتے دیکھ کر صحابہ بھی ر ونے لگے صحابہ کو رونے کی وجہ کا کوئی علم نہیں تھا پیغمبر اکرم(ص) اتنے غمگین ہوئے کی کسی کو آپ سے پو چھنے کا یارانہ ہوتا تھا حضرت رسول خدا کی یہ عادت تھی کہ آپ جب بھی اپنی لخت جگر کو دیکھتے تھے تو خوش ہوجاتے تھے اسی لئے ایک صحابی حضرت سیدہ کے گھر کی طرف چل پڑاتاکہ اس رنجیدہ ماحول کو کسی طرح سے ختم کیا جاسکے جب وہ حضرت سیدہ کے دروازے پر پہنچا تو اس نے دیکھاکہ آپ چکی پیس رہی ہیں اور اس کے ساتھ قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کررہی ہیں '' وماعند اللہ خیر وابقی '' اور جو کچھ خدا کے ہاں ہے وہ بہترہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے'' (القصص .٦٠ . الشوریٰ . ٦ ٣ ) اس صحابہ نے آپ کو سلام کیا اور آپ کو رسول خدا کے رونے کی خبر دی یہ خبر سنتے ہی حضرت سیدہ بلاتاخیراٹھیں آ پ نے اپنی وہ پرانی چادرسر پر رکھی جس میں لیف خرما کی بارہ گر ہیں لگی ہوئی تھیں اور انپے بیت الشرف سے باہر آئیںحضرت سلمان فارسی نے حضرت سیدہ کو اس حالت میں دیکھاتو ان کی چیخ نکل گئی اور رو کر کہا ہائے افسوس .قےصروکسر ی ٰ تو سندس وحریر کا لباس پہنیں لیکن پیغمبر(ص) خدا کی بٹیی ایک بو سیدہ چادرپہنے جس میں متعددگرہیںلگی ہوئی ہوں الغرض حضرت سیدہ پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ: سلمان میرے لباس پر تعجب کر رہا ہے جب کہ مجھے اس خداوندعالم کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ہمیں تو پورے پانچ سال ہوچکے ہیں کہ ہمارے بچھانے کا گد ابس ایک پوست گو سفند پر مشتمل ہے جس پر ہم رات کو آرام کرتے ہیں اور دن کے وقت ہمارا اونٹ اس پوست پر گھاس کھاتا ہے اور ہمارا تکیه لیف خرما سے بھر اہو ہے .
پیغمبر اکرم(ص) نے سلمان سے فرمایا :''ان ابنتی لفی الخیل السوابق'' بے شک میری بیٹی سبقت حاصل کرنے والوں کی صف سے تعلق رکھتی ہے ، پھر حضرت سیدہ نے عرض کی : اباجان! آپ کے رونے کا سبب کیا ہے ؟ اس کے جواب میں رسول خدا نے سورہئ حجر کی مذکورہ دو آیتیں تلاوت فرمائیں ، جب حضرت زہرا نے جہنم کا نام سنا تو آپ چہرے کے بل زمین پر گر پڑیں اور فرمانے لگیں : ''الویل ثم الویل لمن دخل النار'' ، افسوس پھر افسوس ہو اس پر جو دوزخ میںچلا جائے۔ جب سلمان نے ان آیات کو سنا تو کہا :کاش میں ایک گوسفند ہوتامیرے خاندان والے مجھے ذبح کرتے اور میری کھال اتارتے لیکن میں دوزخ کا نام نہ سنتا ۔. ابو ذر نے کہا: کاش میری ماں بانجھ ہوتی تاکہ میں آگ دوزخ کا نام نہ سنتا .
مقداد نے کہا:اے کاش میں بیابا ن کا ایک پرندہ ہوتاکہ نہ میرا حساب ہوتا نہ مجھ پر عقابِ الہی ہوتا۔اور نہ ہی میں آگ جہنم کانام سنا ہواہوتا.
حضرت علی نے کہا : اے کاش! جنگل کے درندے میر ے جسم کو پھاڑ لیتے ، اے کاش ! میری ماں مجھے نہ جنا ہوتااور میں نے دوزخ کا نام نہ سنا ہوتا، پھر حضرت علی نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھااور رو کر کہنے لگے:'' وابعد سفراہ ، واقلۃ زادہ فی سفرالقیامۃ.....''ہائے طول سفر اورہائے سفر قیامت کے لئے زاد راہ کی کمی ، ہائے لوگ آگ کی طرف جا رہے ہوںگے اور آگ ان کو گھیرے میں لے گی ، وہ ایسے بیمار ہیں جن کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں اور وہ ایسے زخمی ہیں جن کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ان کی خوراک اور ان کا پانی آگ کا ہوگا اور وہ آگ کے شعلوں میں غوطہ ور ہوں گے،جب کہ وہ دنیا میں سوتی لباس پہنتے تھے اور دوزخ میں آگ کے شعلے ان کا لباس ہوگا، دنیا میںوہ لوگ اپنی بیویوں سے ہم آغوش ہوتے تھے ،لیکن دوزخ میں شیاطین سے ہم آغوش ہوں گے .
پیغمبر اکرم(ص) اور ان کی بیٹی کا زہد:
پیغمبر اکرم(ص) کا یہ دستورتھاکہ جب آپ کسی سفر کے سلسلے میں باہر جاتے تو سب سے آخر میںحضرت فاطمہ سے خدا حافظی کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ملاقات کرتے تھے اور اس طرح ان سے دوری کے لمحات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
ایک دفعہ جب آپ سفر جنگ سے مدینہ واپس تشریف لائے تو حسب سابق اپنی بیٹی کے گھر گئے ، جب دروازے پر پہونچے تو دیکھا کہ دروازے پر مخصوص پردہ لگا ہوا ہے اور آپ نے اپنے نواسوں (حسن و حسین )کو دیکھا ، جن کے ہاتھوں میں چاندی کے دست بند تھے ، پیغمبر(ص) یہ دیکھتے ہی وہاں سے چلئے گئے اور گھر میں تشریف نہ لائے ، حضرت سیدہ کو اپنے والد کے اس عمل کا پتہ چلا تو آپ سمجھ گئیں کہ وہ اس پردہ اور حسنین کے دست بند کو دیکھ کر واپس چلے گئے ہیں ۔آپ نے وہ پردہ اتارااور اپنے شاہزادوں کے ہاتھوں سے چاندی کے دست بند اتارے اور اپنے شاہزادوں کے ہاتھ وہ پردہ اور دست بند رسول خدا کے حضور روانہ فرمائے ، رسولخدا نے حسنین سے پردہ اور چاندی کے دست بند لے لئے اور اپنے ایک غلام جس کا نام ثوبان تھا سے فرمایا کہ یہ فلاں جگہ لے جاکر فروخت کرو اور اس کی قیمت میں سے میری بیٹی فاطمہ کے لئے چوب عصب کا ایک گلوبند اور حسنین کے لئے چوب عاج کے دست بند خریدو، فان ھولاء اھل بیتی و لا احب ان یاکلوا طیباتھم فی حیاتھم الدنیا: کیونکہ یہ میرے اہل بیت ہیں اور میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنی نیکیوں کا بدلہ اس دنیا میں ہی حاصل کرلیں .
حضرت فاطمہ اور نوشتہئ پیغمبر کا احترام:
شیخ جلیل ابو جعفر طبری اپنی کتاب ''الدلائل'' میں ابن سعود کی سند سے رقم طراز ہیں کہ : ایک شخص حضرت سیدہ کے دروازہ پر حاضر ہوا اور اس نے کہا : کیا آپ کے پاس رسول خدا کی کوئی نشانی بطور یاد گارموجود ہے جس کی میں زیارت کر کے ثواب حاصل کر سکوں ؟ بی بی نے اپنی کنیز سے فرمایا : وہ لکھی ہوئی تختی لے کر آؤ؛ کنیز نے تلاش شروع کی لیکن اسے تختی کہیں دکھائی نہ دی ، بی بی نے کنیز سے فرمایا: ویحک اطلبیھا فانھاتعدل عندی حسنا و حسینا'' تجھ پر افسوس ہو اسے تلاش کر کیونکہ وہ تختی میری نظر میں حسن اور حسین کے برابر ہے ،
کنیز ڈھونڈنے لگی اوربالا ۤخراسے پیدا کیا اور اسے لے کر سیدہ کے حوالے کیا ، اس تختی پر یہ عبارت تحریر تھی ۔رسول خدا نے فرمایا: وہ شخص مؤمن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو ، جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کو نہ ستائے ، جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو ا سے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا خاموش ہو جائے ، اللہ تعالیٰ بھلائی طلب کرنے والے ، برد بار اورصلہ رحمی کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر گالی بکنے والے بد زبان ، بے شرم اور زیادہ سوال کرنے والے اور سوال میں اصرار کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے ، کیونکہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے اور گالی دینا بے شرمی ہے اور بے شرم کا ٹھکانہ جہنم ہے .
مصائب حضرت زہرا کی پیشن گوئی :
شیخ صدوقنے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اہل بیت پر ڈھائے جانے والے مصائب کاتفصیلی تذکرہ کیا ہے ، اور وہ روایت یہ ہے :
میری بیٹی فاطمہ ،تمام زنان اولین و آخرین کی سردار ہیں اور وہ میرا پارہئ تن ہے اور میری آنکھوں کا نور اور میرا میوہ دل ہے ،اور وہ میر ی روح ہے جو کہ میرے پہلو میں دھڑکتی ہے ، وہ انسانی روپ میں حورہے ، وہ جب بھی خدا کی عبادت کے لئے محراب میں کھڑی ہوتی ہے تو اس کا نور اہل آسمان کے لئے ایسا چمکتا ہے جیسے کہ اہل زمین کے لئے ستاروں کا نور چمکتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتا ہے : اے میرے فرشتو ! تم میری کنیز کو دیکھوجو کہ تمام کنیزوں کی سردار ہے ، وہ اس وقت میری عبادت کے لئے میرے سامنے کھڑی ہے ، دیکھو میرے خوف سے اس کے جسم کے اعضاء کس طرح سے لرز رہے ہیں اور وہ پوری توجہ سے میری طرف متوجہ ہے ، میں تمہیں گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اس کے شیعوں کو آتش دوزخ سے آزاد کردیا ہے۔ مؤلف کہتا ہے کہ اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:میں جب بھی فاطمہ کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے ان مصائب کو یاد کرتا ہوں جو میرے جانے کے بعد اس پرآئیں گے، میں گویا اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ اس کے گھر کو پریشانی نے گھیر لیا ہے اور میرے بعد لوگ اس کا احترام نہیں کر رہے ، اس کا حق غصب کر لیا گیا ہے اسے حق میراث سے محروم کیا گیا ہے ، اس کا پہلو شکستہ ہو چکا ہے ، اس کا حمل ساقط ہوگیا ہے ، اور وہ اس وقت مجھے ''یا محمداہ''کہہ کر مدد کے لئے پکار رہی ہے ، لیکن اس کی آواز پر جواب دینے والا کوئی نہیں ہے وہ مدد طلب کررہی ہے لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا ہے ۔وہ میرے بعد ہمیشہ غمگین اور محزون ہے ،وہ کبھی سلسلہ وحی کے منقطع ہونے پر روتی ہے اور کبھی میری جدا ئی کو یاد کرکے روتی ہے اور آدھی رات کے وقت وہ گھبرا جاتی ہے کیونکہ اسے میری تلاوت قرآن کی آواز سنائی نہیں دیتی ، اور ان لمحات کو یاد کرتی ہے کہ وہ اپنے والد کی زندگی میں کس قدر محترم تھی لیکن اب اس کا احترام ملحو ظ خاطرنہیں رکھا جاتا اس وقت خدا انپے فرشتو ں کو اس کا مونس قراردے گا اور فرشتے اس سے باتیں کریں گے جیسا کہ وہ مریم سے کیا کر تے تھے اور وہ اسے آوازدے کرکہیں گے ۔''یا فاطمۃ ان اللہ اصطفاک وطھر ک واصطفا ک علیٰ نساء العا لمین یا فاطمہ اقنتی لر بک واسجدی وار کعی مع الراکعین ''۔'' اے فاطمہ اللہ نے تجھے چن لیا ہے اور تجھے پاک وپاکیز ہ بنایا ہے اور تجھے تمام جہانوںکی عورتوںسے ممتازکیا ہے اے فاطمہ اپنے پرودرگار کی عبادت کر اور سجدہ کراور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر'' . پھر میں گویایہ منظربھی انپی آنکھو ں سے دیکھ رہا ہوں کہ میری بیٹی دردمند ہے اور مریض ،اور اسے تیمادارکی ضرورت ہے،اللہ تعالیٰ ،مریم بنت عمران کواس کی تیمارداری کے لئے روانہ کرتا ہے ، اور وہ ا س کی تیمارداری کرتی ہے ، اس وقت میری بیٹی خدا کی بارگاہ میں یوں راز و نیاز کر رہی ہے ، اے میرے اللہ! میں زندگی سے سیر ہوچکی ہوں، میں تھک چکی ہوں، اہل دنیا سے میں نے بہت سے دکھ اٹھائے ہیں اب مجھے میرے والد کے ساتھ ملحق فرما''. اللہ تعالیٰ اسے مجھ سے ملحق کرے گاوہ میرے خاندان میں سب سے پہلے میرے پاس غمگین اور محزون حالت میں آئے گی کہ اس کا حق غصب کیا جا چکا ہے اور اسے شہید کیا گیا ہوگا، اور میں اس وقت خدا کے حضور عرض کروں گا: ''خدایا! جن لوگوں نے اس پر ظلم کیا ہے انہیں اپنی رحمت سے دور فرما،اور جن لوگوں نے اس کا حق غصب کیا ہے ان سے پورا بدلہ لے ، جن لوگوں نے اسے پریشان کیا ہے انہیں ذلیل و خوار فرما اور جنہوں نے اس کے پہلو کو زخمی کیا ہے اور اس کے حمل کو ساقط کیا ہے انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل فرما ''.اس وقت فرشتے میری دعا کی قبولیت کے لئے آمین کہیں گے .
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میرے والد اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سردار اور میرے شوہر تمام وصیوں کے سردار ہیں اور میرے دونوںبیٹے تمام اولاد انبیاء کے سردار ہیں''.
پھر آپ نے ان چاروں خواتین کو نام بنام سلام کیا اور انہوں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا ،آپ کی ولادت پر جو نور ظاہر ہوا ، حورانِ جنت اور اہل آسمان نے ایسا نور کبھی نہیں دیکھا تھا ، ان خواتین نے حضرت خدیجہ سے کہا !''اپنی پاک و پاکیزہ ا ور مبارک نسل کی ماںکو اپنی گود میں لو ''. آپ نے بڑی خوشی سے اپنی بیٹی کو آغوش میںلیا اور ان کے منہ کو اپنی چھاتی سے لگایا جس سے پاک دودھ جاری ہو گیا ، آپ ایک دن میں ایک ماہ کے بڑھتی تھیں ، اور ایک ماہ میں ایک سال کے ہوجاتی تھیں .
آپ کے اسمائے گرامی:
یونس بن ظبیان فرماتے ہیں کہ امام صادق نے فرمایا کہ خدا کے ہاںفاطمہ کے نو نام ہیں:
١۔فاطمہ ، ٢۔صدّیقہ ، ٣۔مبارکہ ، ٤۔طاہرہ ، ٥۔زکیہ ، ٦۔راضیه ، ٧۔محدّثہ ، ٨۔مرضیہ ، ٩۔زہرا .
پھر آپ نے فرمایا ! '' فطمت من الشّر''آپ ہر برائی اور شر سے جدا اور دور رکھی گئی ہیں پھر آپ نے فرمایا !''اگر امیرالمؤمنین حضرت علی نہ ہوتے تو حضرت آدم سے لیکر تا روز قیامت روئے زمین پر فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہو تا''. بعض روایت میں لفظ فاطمہ کی وجہ تسمیہ یه ذکر ہوئی ہے : '' فطمت ہی و شیعتہا من النار'' آپ اور آپکے چاہنے والے دوزخ سے آزاد کئے گئے ہیں . اس لفظ کی مزید یہ وجہیں بھی ذکر ہوئی ہے ١۔اپنے علم کی وجہ سے دوسروںسے بالا ہیں ٢۔ماہانہ عادت سے پا ک ہیں ٣۔لوگ ان کی معرفت سے عاجز ہیں ٤۔اور یہ کہ آپ کی مومن اولاد کو اللہ تعالی نے دوزخ کی آگ سے دور رکھا ہے اور اسی طرح آپ کے شیعوںکو بھی آتش جہنم سے آزاد کیا ہے ۔دوسری روایت یہ ہے کہ نام فاطمہ، اخدا کے نام فاطر سے لیا گیا ہے ، آپ کا نام طاہرہ بھی ہے چونکہ آپ ہر ظاہری و باطنی نجاست سے پاک و پاکیزہ ہیں اور عورتوں کے مخصوص ایام (حےض ونفاس )سے بھی دور تھیں .
اور زہرا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ کا نور روزانہ تین بار حضرت علی کیلئے چمکتا تھا ، جیسا کہ ابو ہاشم جعفری ، امام حسن عسکری سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ سے میں نے زہرا کی وجہ تسمیہ پوچھا تو آپ نے فرمایا ! اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت صبح آپ کا چہرہ علی کے لئے چاشت کے وقت آفتاب کی طرح اور وقت ظہر چمکتے چاند کی طرح اور وقت غروب چمکتے ہوئے ستارے کی طرح چمکتاتھا ،
شیخ صدوق نے امام رضا سے یہ روایت نقل کی ہے: '' کہ جب ہلال ماہ رمضان طلوع کرتا تو آ پکا نور اس پر غالب آجاتا اسی وجہ سے چاند نظر نہیں آتا اور جوں ہی آپ ہٹ جاتیں تو چاند دکھائی دینے لگتا تھا ''.
امام صادق فرماتے ہیں کہ!وجہ تسمیہ زہرا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے جنت میں سرخ یاقوتی گنبد بنایا ہے جس کی بلندی فضا میں ایک سال کی مسافت کے برابر ہے اور وہ گنبد قدرت الہی سے فضا میں ایسے معلق ہے کہ نہ ہی زمین سے لگا ہوا ہے اور نہ ہی آسمان سے کسی چیز میں لٹکا ہوا ہے ، اور اس کے ایک لاکھ دروازے ہیں جس کے ہر دروازے پر ایک ہزار فرشتے بطور دربان معین ہیں ، اہل بہشت اس گنبد کو یوں دیکھتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان میں کسی چمکتے ہوئے ستارے کو دیکھتے ہو ، اور اہل جنت کہتے ہیں یہ چمکتی شئی زہراء ہے جو فاطمہ کی ملکیت ہے اسی طرح ایک اور وجہ تسمیہ یوں بیان ہوئی ہے کہ جب اللہ تعالی نے فرشتوںکوآزمانے کا ارادہ کیا تو ان کی طرف ایک تاریک بادل کو روانہ کیا جس کی وجہ سے ہرطرف اتنی تاریکی چھا گئی کہ فرشتے ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے ، فرشتوں نے خدا سے تاریکی دور کرنے کی در خواست کی ، اللہ تعالی نے انکی دعا کو قبول فرمایا اور نور فاطمہ کو پیدا کیا جو کہ فانوس کی مانندتھا ،پھر اس فانوس کو عرش کے اطراف میں آویزاں کیا ، اس نور کی جگمگاہٹ سے ساتوں آسمان اور زمینیں روشن ہوگئیں ، فرشتوں نے اللہ کی تقدیس و تسبےح شروع کی ، اللہ تعالی نے فرمایا !''مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! تمہاری قیامت تک کی تسبےح کا ثواب ، محبین حضرت زہرا اور انکے شوہر اور ان کی اولاد کے چاہنے والوںکو عطا کروں گا ۔
آپ کے دیگر اسمائے مبارکہ یہ ہیں ، حصان ، حرّہ ، سیدہ ، عذراء ، حوراء ، مریم کبری ،اور بتول .
روایت میں آپ کو بتول کہنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ نے اپنے زندگی میں کبھی بھی عورتوں کی ماہانہ عادت نہیں دیکھی تھی اسی طرح حضرت مریم مادر عیسی نے بھی کبھی ماہواری نہیں دیکھی تھی ، اسی لئے انہیں بھی بتول کہا جاتا ہے ، اور کہا گیا ہے کہ بتول لفظ'' َبَتُل ''سے مشتق ہے جس کے معنی انقطاع (دنیا سے دوری )اور جدائی کے ہے اور چونکہ آپ تمام عورتوں سے بلحاظ فضیلت و دین و شرافت بہتر اور ممتاز تھیں لہذا آپ کو بتول کہا جاتا ہے ، اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو دنیا سے الگ کرلیا تھا اور اپنے خدا سے وابستگی اختیار کی تھی لہذا آپ کو بتول پکارا کیا کرتے تھے ،
مرحوم ابن شہر آشوب ،کتاب مناقب میں رقم طراز ہیں کہ روایت صحےحہ کے مطابق حضرت فاطمہ کے بیس نام ہیں ، جن میں سے ہر ایک آپ کی کسی نہ کسی فضیلت و شرف پہ دلالت کرتا ہے ، یہ تمام نام ابن بابویہ نے اپنی کتاب''مولد فاطمہ ''میں نقل کی ہے .
آپ کے کنیہ مبارکہ:
١۔ام الحسن ، ٢۔ام الحسین ، ٣۔ام المحسن ، ٤۔ا م الائمہ ، ٥۔ام ابیها ، ٦۔ام المؤمنین .
مذکورہ بالا کنیتیں حضرت سیدہ کی زیارت میں ذکر ہوئی ہیں ،
کتاب مناقب میں ذکر ہوا ہے کہ آسمانوں میں حضرت سیدہ کو نوریہ،سماویہ اور حانیہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ،لفظ حانیہ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنے شوہر اور اپنی اولاد کے لئے انتہائی ہمدرد اور مہربان تھیں .
شوہر سے ہمدردی کا نمونہ:
اپنے شوہر سے حضرت سیدہ کی ہمدرد ی کا سب سے بڑا ثبوت یه ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے حق امامت وخلافت کا دفاع کیا اور اسی وجہ سے انہیں مصائب کا سا منا کرنا پڑا امام علی کے مخالفین نے اسی لئے آپکی توہین کی تھی،اور آپ کے دروازے کو آگ لگائی تھی ِ،جب جلتا ہوا دروازہ گرا تو آپ کی کچھ پسلیاں ٹوٹ گئیںنیزآپ کے بازو پر تا زیانہ ماراگیا جس کا اثر وفات تک ایک نیلے دائرے کی شکل میںباقی رہا غرضیکہ ان مصائب وآلام کی وجہ سے ہی آپ کی شہادت ہوئی یه تمام تر مصائب وآلام امام علی کے دفاع کی وجہ سے آپ کو سہنے پڑے اور جب آپ کی وفات کا وقت ہوا توحضرت علی نے آپ کوروتے ہوئے دیکھا حضرت علی نے آ پ سے رونے کی وجہ پو چھی تو سیدہ نے عر ض کیا میں ان مصائب کا تصو رکرکے رورہی ہو ں جو میرے بعدآپ کے او پر ہوں گے حضرت علی نے فرمایا : مت روؤ خدا کی قسم یه مصا ئب راہ خدا میںہیںاس لئے میر ے لئے یہ انتہائی معمولی اور بے وقعت ہیں .
شیخ مفید کتاب ارشاد میں نقل فرما تے ہیں :'' رسول خدا نے ہجرت کے آٹھویں برس جنگ ذات السلاسل کے لئے حضرت علی کو دشمن کی سر کو بی کے لئے صحرائے یا بس کی طرف روانہ کیا روایات میں ہے کہ حضرت علی کا ایک مخصوص پیلے رنگ کا رومال تھا جسے آپ سخت جنگ کے وقت سر پر باندھا کرتے تھے جب رسول کریم (ص)نے انہیںذات السلاسل کے لئے جانے کا حکم صادرفرمایا تو آپ اپنے بیت الشرف میں تشریف لائے اور حضرت زہرا سے وہ رومال طلب کیا تو انہوں نے عر ض کیا آپ کہاں جانا چاہتے ہے کہیںایسا تو نہیںکہ آ پ قتل ہو جائیں ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے مجھے ریگزاریا بس کی طرف جانے کا حکم دیا ہے حضرت زہرا اپنے شوہر کی محبت کی وجہ سے رونے لگیں،جب آپ رو رہی تھیںتو اس وقت رسول خداگھر میں تشریف لائے اور فرمایا: اے فاطمہ !تم کیوں رورہی ہو ؟اور کیا آپ کو یه اندیشہ ہے کہ کہیںتمہارے شوہر قتل ہوجا ئیں گے ؟ خدا نے چا ہا تو علی قتل نہیںہوں گے .
حضرت علی نے عرض کیا یا رسول خدا کیا آپ یه پسندنہیں کر تے ہیں کہ میں شہادت پا کر جنت میں چلا جاؤں ۔
اپنی اولا د پر حضرت زہرا کی شفقت کا نمونہ
حضرت زہرا کو اپنی اولاد سے کس قدر محبت تھی س کا اندازہ کر نے کے لئے درج ذیل روایت کافی ہے ؛
جنگ ذات السلاسل ہجرت کے آٹھو یں سال ہوئی تھی ۔اس میں کفار کی طر ف سے بارہ ہز ار سوار شریک تھے۔اسلامی لشکرکی قیادت حضرت علی نے کی تھی اور اس میں آ پ نے کا میابی حاصل کی تھی ۔سورہ عادیات آپ اور آپ کے دوستوںکی شان میں نازل ہوئی تھی ۔مجمع البیان جلد دہم صفہ ٥٢٨
شیخ صدوق نے حماد سے اور انہوںنے امام جعفرصادق سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: کسی شخض کے لئے جا ئز نہیں ہے کہ وہ اولا د زہر ا میں سے بیک وقت دو عورتوں سے عقد کر ے کیونکہ جب زہر ا یه سنتی ہیں ،تو انہیں یہ بات ناگوار گزرتی ہے حماد نے پو چھا : حضرت زہر ا کو اس کی خبر مل جا تی ہے ؟
امام نے فرمایا : ہاں خدا کی قسم ۔
ابن عنین شاعر کا واقعہ ُُُ ابن عنین سا تو یںصدی کے شا عر تھے ۔ ان کے متعلق عمدۃ الطا لب میں ایک عجیب وغر یب واقعہ مر قو م ہے .
ابن عنین نے ایک سال مکہ کا سفر کیا اور اس سفر میں اس کے پاس بہت سا مال وا سبا ب بھی تھا راستہ میں سادات بنی داؤد نے اس کا تما م مال واسباب لوٹ لیا اور اس ہنگامہ دارو گیر میں وہ زخمی بھی ہوا ۔ لو ٹنے والوں نے اس کے مال واسبا ب پر ہی قنا عت نہیں کی بلکہ اسکے کپڑے تک اتر والئے ۔ اور اسے زخمی حالت میںچھوڑ کر بھاگ نکلے .
ا بن عنین نے سلطان یمن عزیز بن ایوب کو خط لکھااور اس سے سادات بنی داؤد کی تنبیہ کی درخواست کی اس وقت سلطان یمن نے اپنے بھائی ناصر کو سمندر کے ان ساحلی علاقوں کے انتظام اور دیکھ بھال کے لئے بھیجا تھا جسے اس نے تھوڑے ہی عرصے قبل فرنگیوں سے آزاد کرایا تھا . ا بن عنین نے سلطان یمن کو مزید ترغیب دینے کے لئے یہ شعر تحریر کئے :
اعیت صفات نداک المصقع اللسنا وجزت فی الجود حدالحسن والحسنا
و لا تقل صاحب الا فرنج افتحہ فما تساوی ا ذ ا قا یستہ عد نا
وا ن ا ردت جھاداً فارق سیفک من قوم اضاعوا فروض اللہ و السننا
طھر بسیفک بیت اللہ من دنس و من خساسۃ اقوام بہ وخنا
و لا تقل انھم اولاد فاطمہ لو ادرکو آل حرب حاربوا الحسنا
آپ کی نیک صفات اور آپکی سخاوت نے فصےح وبلیغ افر اد کو عا جز کر دیا اور سخاوت وبخشش میں آپ اس مقام پرپہنچ چکے ہیںجہاں اچھائی اور نیکی کی تمام سرحدیں بہت پےچھے رہ جاتی ہیں . آپ یه نہ کہیں کہ میں نے اس ساحل کو فتح کر لیا ہے جس پر انگریز استعمار نے قبضہ کر لیا تھا ، کیونکہ ساحل عدن اور ساحل فرنگ کاکوئی موازنہ ہی نہیںہے ،
اگر آپ جھاد کے خواہش مند ہیںتو آئے اور اپنی تلوار سے ان لوگوں کو قتل کریں جنہوں نے فریضه الہی اور سنت پیغمبر(ص) کوضائع کیا ،
آپ اپنی تلوار سے اللہ کے گھر مکہ کو ناپاکی اور پست اقوام سے پاک کریں آپ یہ نہ کہیں کہ یہ اولاد فاطمہ ہیں اس لئے میں ان سے جنگ نہیں کرتا ، بلکہ یہ اتنے گھٹیا لوگ ہیں کہ اگر اولاد ابو سفیان کے دور میں ہوتے تو امام حسن سے بھی جنگ کرتے .
جب ابن عنین نے اپنے خط میں یہ نظم تحریر کرکے اسے سلطان یمن کو بھیج دیا ،تواس نے عالم خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ کے پاس کھڑا ہے اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا مصروف طواف ہیں ، وہ بی بی کو سلام کرنے کے لئے آگے بڑھا اورپھر بی بی کو سلام کیا ، مگر حضرت فاطمہ زہرا فاطمہ زہراء(س) نے اسکے سلام کا کوئی جواب نہ دیا ، اس پر وہ رونے لگا اور بڑی عاجزی سے کہا :''سیدہ ! میں نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے آپ میرے سلام کا جواب نہیں دیتیں؟
اس کے جواب میں حضرت فاطمہ زہراء(س) نے یہ اشعار پڑھے:
حاشا نبی فاطمہ کلھم من خستہ تعرض اومن خنا
وانما الایام فی غد رہا و فعلھا السوء ا ساء ت بنا
وان اساء من ولدی واحد جعلت کل السب عمداً لنا
فتب الی اللہ فمن یقترف ذنباً بنا یغفر لہ ما جنیٰ
اکرم لعین المصطفیٰ جد ھم و لا تھن من آلہ اعینا
فکلما نالک منہم عنا تلقی بہ فی الحشر منّا ھنا
حاشا و کلاکہ تمام اولاد حضرت فاطمہ زہراء(س) پست اور خراب ہوں ، زمانہ کی گردش نے ہمیںبہت برے دن دکھائے اور ہم سے مکاری کی ہے اگر میری اولاد میں سے ایک نے برائی بھی کی تو تجھے سب کو گالیاں دینے کا حق نہیں تھا ، اپنے اس فعل سے توبہ کر کہ اگر کوئی ہم سے برا سلوک کر کے توبہ کرلے تو اللہ تعالی اسے معاف کر دیتا ہے ، ان کے جد نامدا ر حضرت محمد کی وجہ سے ان کا احترام کر اور ان کی آل میںسے کسی کو مت ستااور کسی کی توہین نہ کر ، آل رسول کی وجہ سے تجھے جو بھی تکلیف پہنچے اس کا بدلہ قیامت کے دن ہم تجھے دیںگے .
ابن عنین کا بیان ہے کہ میں روتا ہوا خواب سے بیدار ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ حضرت فاطمہ زہراء(س) کی برکت سے میرے جسم کے تمام زخم مندمل ہو چکے ہیں اور میرے بدن پر کہیں بھی زخموںکے نشان تک موجود نہیں میں اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا پھر معذرت کے لئے میں نے یہ اشعارکہے :
عذرا الی بنت نبی الھدی تصفح عن ذنب مسیء جنا
و توبۃ تقلبھا من اخی مقا لۃ تو قعہ فی ا لعنا
واللہ لو قطعنی واحد منھم بسیف البغی او بالقنا
لم ا ر ما یفعلہ سیأا بل ارہ فی الفعل قد احبسنا
پیغمبر اکرم(ص) کی صاحبزاد ی کے حضور معذرت خواہ ہوںجو کہ گناہ سے درگزر کرتی ہیں ، اور میں اپنی اس گفتار سے توبہ کرتا ہوںجس کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی ہے ،خدا کی قسم!اب اگر اولاد فاطمہ میں سے اگر کوئی شمشیر ظلم یا نیزے کے ذریعے مجھے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردے تو بھی میں اسے برا نہیں سمجھوں گا بلکہ اسے اچھا کام تصور کروں گا.
حضرت زہرا کے فضائل:
حضرت سیدہ (سلام اللہ علیہا )کساء اور مباہلہ کے افراد میں سے ایک فرد ہیں اسی طرح آپ کا تعلق ان افراد سے ہے جنہوں نے سخت ترین حالات میں ہجرت کی تھی ، اور آ پ ان پاکیزہ ہستیوں میں سے ایک ہیںجن کی طہارت کی گواہی کے لئے اللہ تعالی نے آیت تطہیر نازل کی اور جبرئیل امین نے جن کے ساتھ چادر میں شامل ہونے کو اپنے لئے باعثِ اعزاز تصور کیا ، آپ کا تعلق صادقین کی اس جماعت سے ہے جن کے ساتھ تمسک کی قرآن نے تاکید کی ہے ، اسی طرح آپ گیارہ ائمہ طاہرین کی والدہ ماجدہ ہیں ، اور آپ پیغمبر اکرم(ص) کی وہ یادگار ہیں جس سے اللہ نے نسل رسول کو قیامت تک کے لئے جاری فرمایا اور آپ اولین و آخرین کی سردار ہیں ،آپ گفتار و رفتار میں پیغمبر(ص) خدا کی ہو بہو شبیہ تھیں،آپکا کردار پیغمبر اکرم(ص) کے کردارکا آئینہ تھا آپ کی چال پیغمبر اکرم(ص) کی چال دکھائی دیتی تھی۔
رسول خدا آپ کو آتے ہو ئے دیکھ کر گر مجوشی سے آپ کا استقبا ل کر تے تھے ، آپ کے ہا تھو ں کا بوسہ لیتے تھے اور اپنی مسند پر بٹھایاکرتے تھے .اسی طر ح جب رسول خدا انپی دختر کے ہاں تشر یف لے جا تے تو سید ہ بھی گر مجو شی سے ان کا استقبا ل کر تی تھیں اور ان کے ہا تھوں کے بوسہ لیتی تھیں؛ پیغمبر ا کر م ان سے حد پیا ر کر تے تھے ؛ جب بھی آپ خوشبوئے جنت کے مشتا ق ہو تے تو آ پ سیدہ کے و جو د اطہر کی خو شبو کو سو نگھا کر تے تھے . اور فر مایا کر تے تھے :
''فاطمۃ بضعۃ منی، من سرّہا فقد سرّ نی و من سائہا فقد سائنی''
فا طمہ میر ا ٹکڑا ہے جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے اسے ستا یا اس نے مجھے ستا یا '' فاطمۃ اعزّ الناس الیّ '' تما م لوگوں میں سے فا طمہ مجھے ز یا دہ عز یز ہے اور کبھی کبھی آپ اپنی محبت کا اظہا ر ان الفاظ سے کیا کرتے تھے ، ''یا حبیبۃ ابیہا'' اے انپے والد کی محبوب تر ین شخصیت؛ طبر ی اما می نے اما م محمد با قر سے اورانہوں نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے نقل کیا کہ حضرت فاطمہ نے فر مایا کہ رسول خدا نے ایک دفعہ ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : ''یا حبیبۃ ابیها کل مسکر حرام وکل مسکر خمر'' اے اپنے والد کی محبوب شخصیت ! ہر مدہوش کرنے والی چیز حرام ہے اور ہر مدہوش کرنے والی چیز نشہ آور ہے .
دوستانِ خدا اگر اپنے کسی عزیز یا اپنے کسی بیٹے یا بیٹی سے محبت کرتے ہیں تو ان کی محبت طبعی اور فطری جذبات کی وجہ سے نہیں ہوتی ، مقربان ِخدا کسی سے اگر محبت کرتے ہیں تو بھی اس میں محبت ِ خداوندی کو مدنظررکھتے ہیں ، اسی لئے حضرت یعقوب اپنے تمام بیٹوں میں حضرت یوسف سے زیادہ محبت کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی اولاد میں حضرت یوسف ہی خدا کے محبوب ہیں ، جبکہ حضرت یعقوب کے دوسرے بیٹے اس بات سے کڑھتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہمارے والد خواہ مخواہ یوسف کی محبت میں دیوانے بنے ہوئے ہیں جب کہ ہم زیادہ طاقتور ہیں اور ہم اپنے والد کی قوت بازو ثابت ہو سکتے ہیں ، اسی لئے ہمارے والد کو چاہئے کہ ان حقائق کو پیش نظر رکھیں اور یوسف سے محبت کے بجائے ہم سے محبت کریں.
مرحوم کلینی نے محمد بن سنان سے نقل کیا ہے کہ میں امام محمد تقی کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا میں نے آپ کے سامنے ان اختلافات کا ذکر کیا جو کہ شیعوں میں پیدا ہو چکے تھے ، آپ نے میری بات سننے کے بعد فرمایا ! اے محمد ! خداوند عالم ازل سے وحدہ لا شریک ہے ، پھر اللہ نے محمد ، علی اور فاطمہ کو پیداکیا اور یہ تینوں پاکیزہ نور کئی ہزار سال تک رہے ، پھر خدا نے تمام موجودات کو پیدا کیا اور انہیں اپنی مخلوقات کا گواہ بنایا پھر ان کی اطا عت کو تما م مخلو قا ت میں جا ری فر مایا اور ان کے ا مور کو ان کے حوالے فر مایا ، پس وہ محمد علی و فا طمہ جو چاہتے ہیں حلال کر تے ہیں اور جو چا ہتے ہیں حرام کر تے ہیں البتہ وہ صرف وہی کچھ چاہتے ہیں ،جو خدا چاہتا ہے ۔
پھر امام محمد تقی نے فر مایا ، اے محمد! اصل دین یہی ہے جو اس سے آگے بڑ ھتا ہے وہ گمر اہ ہو تا ہے اور جو کو ئی اس میں سستی کر تا ہے اور پےچھے رہتا ہے وہ ہلا ک ہو جا تا ہے اور جو دین کے سا تھ چلتا ہے اور ہمیشہ اس سے وابستہ رہتا ہے وہ حق کو پا لیتا ہے اے محمد ! اس بات کو یا د رکھو۔
مو لف بیان کرتاہے کہ اس حد یث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء (سلا م اللہ علیہا) ان افر اد میں شامل ہیںکہ جن کے سپردامو ر خلق کئے گئے ہیں اور وہ جو چا ہتے ہیں حلال کر تے ہیں اور جو چاہتے ہیں حرام کرتے ہیں، (مگر یہ واضح رہے کہ وہ صرف وہی کچھ چاہتے ہیں جو خدا چا ہتا ہے اور ان کی ہر خواہش خدا کی مرضی کے تابع ہے)
ائمہ معصومین سے بہت سی ایسی روایات مروی ہیں جن میں بیان کی گیا ہے کہ مصحف ِفاطمہ ائمہ معصومین کے پاس ہے . کتاب بصائر الدرجات میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے : '' حضرت فاطمہ نے ایک مصحف بطور یادگار چھوڑا '' وہ مصحف قرآن نہیں ہے لیکن وہ خدا کے اس کلام پر مشتمل ہے جو اللہ نے فاطمہ پر نازل کیا تھا رسول خدا نے اسے املا کرایا اور حضر ت علی نے اسے لکھا ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میںحاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چا ہتا ہوں کیا یہا ں کو ئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میر ی بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فر ما یا '' ابو محمد '' تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے دروازہ کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار دروزاے کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کا مل اور حقیقی علم ہے ،امام صا دق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کا مل علم نہیں ہے ؛
پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ؛ ہما رے پاس جا معہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمباہے رسول خدا نے اسے املاکیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟
میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس '' جفر '' ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛
ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہا تھو ں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حر ف نہیں ہے ؛
میں نے عر ض کیا ؛ کیایه کا مل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالا ت کا علم موجو د ہے میں نے عر ض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کا مل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسر ی چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا ؛
بہشت میں حضرت زہر ا سلام اللہ علیها کا مرتبہ
چند روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت سید ہ کا شما ران چار افر اد میں ہے جو قیا مت کے دن سوار ہو کر آئیں گے حضرت زہرا سلام اللہ علیها رسول خدا کی اونٹنی '' غضبائ''پر سوار ہو کرمیدان محشر میں داخل ہونگی ، مرحوم ابن آشوب نے روایت کی ہے کہ جب پیامبر اکرم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کی اونٹنی نے عرض کیا کہ آپ اپنے بعد کس سے میرے بارے میں وصیت کر رہے ہیں ؟ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ! ''غضباء : خدا تجھے برکت دے گا ،میرے بعد تو میری بیٹی فاطمہ کی ملکیت میں چلی جائے گی ، وہ دنیا و آخرت میں تجھ پر سواری کرے گی ''
پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد رات کو وہ اونٹنی حضرت سیدہ کے دروازے پر آئی اور کہا : دختر رسول آپ پر سلام ؛ دنیا سے میری روانگی کا وقت قریب آچکا ہے خدا کی قسم !رسول اکرم کی رحلت کے بعد میں نے نہ تو گھاس کھایا اور نہ ہی پانی پیا ہے ، پھر وہ اونٹنی وفات رسول کے تین دن بعدمرگئی .
فرات بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امیرالمؤمنین نے فرمایا : ایک دن رسول خدا ، فاطمہ کے پاس تشریف فرما تھے اور اس وقت فاطمہ کچھ غمگین تھیں ، رسول خدا نے قیامت کے حالات کے متعلق کچھ مطالب بیان فرمائے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا ! فاطمہ جب تم جنت میں پہونچو گی تو ایسی بارہ ہزار حوریں تم سے ملاقات کریں گی جنہوں نے تم سے پہلے کسی سے ملاقات نہیں کی ہوگی اور تمہاری ملاقات کے بعد وہ کسی سے بھی ملاقات نہ کریں گی۔ ان کے ہاتھوں میں نور کے ہتھیار ہوں گے ۔ وہ نورانی اونٹوں پر سوار ہوں گی ۔ان کی اونٹوں کے پالان زرد سونے اور سرخ یاقو ت سے بنے ہوئے ہونگے اور ان کی مہار تازہ مرواریدکی ہوں گی ، ہر ناقہ پر سندس کی چادر ہوگی جس میں آبدار جواہر ٹکے ہوئے ہوں گے جب تم بہشت میں داخل ہوگی تو اہل بہشت تمہاری وہاں آمد سے خوش ہونگے اورتمہارے شیعوں کے لئے ایک مخصوص دسترخوان جو کہ نور کی کرسی پر رکھا ہوگا لایا جائے گا اور وہ اس غذا سے تناول کریں گے ۔ جب کہ باقی لوگ ابھی تک حساب و کتاب کے مراحل طے کر رہے ہوں گے اورتمہارے شیعوں کے لئے وہ سب کچھ مو جود ہوگا جس کی وہ خواہش کریں گے ۔ جب خدا کے تمام اولیاء بہشت میںداخل ہو جائیں گے تو حضرت آدم تمہاری زیارت کے لئے آ ئیں گے اور ان کے بعد دوسرے انبیاء بھی تمہاری زیارت کے لئے آئیں گے .
جناب فاطمہ کی گفتگو سے قلبِ رسول کی تسکین
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا بیان ہے کہ جب سورہئ نور کی یہ آیت نازل ہوئی
(لا تجعلوا دعا ء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا) نور۔٦٣.
مسلمانو! خبردار رسول کو اس طرح نہ پکارا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ،
تو میں اپنے والد محترم کو ''یارسول اللہ '' کہہ کر پکارنے لگی ، لیکن آنحضرت میری زبان سے ''یارسول اللہ '' کے بجائے ''یا ابتِ '' سننے کے مشتاق تھے ، تین بار میں نے انہیں ''یارسول اللہ '' کہہ کر مخاطب کیا آپ نے کچھ نہ کہا اور جب میں نے چوتھی بار انہیں ''یارسول اللہ '' کہہ کر مخاطب کیا تو آپ نے میری طرف رخ انور کر کے فرمایا !
یا فاطمہ ! انّھا لم تنزل فیک ، و لا فی اھلک و لا نسلک ، وانت منّی و انا منک ، انمّانزلت فی اھل الجفاء و الغلظۃ من قریش ، اصحاب البذخ والکبر .
اے فاطمہ ! یہ آیت تمہارے اورتمہاری آل اور تمہاری نسل کے لئے نازل نہیں ہوئی تم مجھ سے ہواور میں تم سے ہوں ۔ یہ آیت قریش کے بے انصاف اور بدزبان متکبر اور خود پسند افراد کے لئے نازل ہوئی ہے ،
پھر آپ نے فرمایا: قولی لی یا ابہ ! فانہااحےیٰ للقلب ، وارضیٰ للرّبّ .
تم مجھے ابا جان کہہ کر پکارا کر تمہارا ابا جان کہہ کر پکارنا میرے دل کو زیادہ زندہ رکھنے والا اور خدا کو زیادہ راضی کرنے والا ہے .
مصباح الانوار میں امیرالمؤمنین سے روایت ہے کہ فاطمہ زہراء(س) نے کہا کہ رسول خدا نے ان سے فرمایا
من صلّی علیک ِغفر اللہ لہ و الحقہ بی حیث کنت من الجنۃ جو کوئی بھی تمہارے او پر درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے گا اور جنت میں اسے مجھ سے ملحق فرمائے گا .
جناب فاطمہ کی بھوک اور پیغمبر اکرم(ص) کی دعا
ثقۃ الاسلام کلینی کے مطابق امام محمد باقر نے جناب جابر سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول خدا اپنے گھر سے حضرت فاطمہ سے ملاقات کرنے کی غرض سے روانہ ہو ئے، میں آنحضرت کے ساتھ تھا ؛ جب حضرت فاطمہ کے دروازے پر پہنچے تو آپ دروازے پر رک گئے اور دستک دی پھر کہا ؛ السلام علیکم؛جو اب میں حضرت فاطمہ نے بھی سلام کیا۔رسول خدا نے فرمایا : کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ حضرت فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اندر آجائیں پھر رسول خدا نے فرمایا : کیا میں اور جو میرے ساتھ ہے ہم دونوں اندر آسکتے ہیں ؟ حضرت فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ میرے پاس مقنعہ اور چادر نہیں ہے
رسول خدا نے فرمایا :اپنی چادر کے پلو سے اپنے سر کو ڈھانپ لو ۔ حضرت فاطمہ نے چادر کے پلو سے اپنے سر کو ڈھانپ لیا ، پھر رسول خدا نے انہیں سلام کہا اور بی بی نے سلام کا جواب دیا ، پیغمبر اکرم(ص) نے داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو بی بی نے کہا : اب آپ اندر تشریف لائےے ر سول خدا نے فرمایا : کیا میں اور جو میرے ساتھ ہے ہم دونوں اندر آسکتے ہیں ، حضرت فاطمہ نے فرمایا ! جی ہاں آپ دونوں اندر آ سکتے ہیں ، جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا گھر میں داخل ہوئے اور ان کے پیچھے میں بھی گھر میں داخل ہوا ، اچانک میں نے محسوس کیا کہ فاطمہ زہراء(س) کا چہرا زرد ہوگیاہے پیغمبر اکرم(ص) نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی توحضرت فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ بھوک کی سختی سے یہ حالت ہوگئی ہے اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے دعا مانگی کہ اے وہ ذات جو بھوکوں کو سیر کرتی ہے اور کمیوں کوپورا کرتی ہے فاطمہ کو سیر فرما .
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی جناب سیدہ کے پاس آئے اور فرمایا : فاطمہ کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے جس سے میں اپنی بھوک دور کر سکوں؟ بی بی نے عرض کیا :اس خدا کی قسم جس نے میرے والد کو نبوت کے مقام سے سرفراز کیا اور آپ کو مقام وصایت عطا کیا میرے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ دو دن سے میں نے اور میرے بچوں نے کچھ نہیں کھایا ، البتہ پچھلے دو دنوں میں تھوڑی سی غذا موجود تھی جسے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتی رہی اور خود میں اور حسنین فاقہ کرتے رہے ، حضرت علی نے فرمایا :تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی تا کہ میں کھانے کا کوئی بندوبست کرتا ؟
بی بی نے فرمایا :''یا اباالحسن انّی لا ۤستحیی من الہی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ ''
اے ابوالحسن! مجھے اپنے خدا سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میں آپ سے ایسا مطالبہ کروں جو کہ آپ کے بس سے باہر ہوـ
کتاب قرب الاسنادمیں امام جعفر صادق سے منقول ہے ۔آپ نے فرمایا کہ امام محمد باقر نے فرمایا: حضرت علی اور حضرت سیدہ نے رسول خدا سے گھر کے کاموں کی تقسیم کرنے کے لئے درخواست کی تو رسول خدا نے گھر کے اندرکے کام حضرت فاطمہ کے سپرد کئے اور گھر سے باہر کے کام حضرت علی کے سپرد کئے ، بی بی فرماتی تھیں کہ خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ اس تقسیم کار سے میں کتنی خوش ہوئی تھی کیونکہ رسول خدا نے مجھے گھر سے باہر کے کاموں سے آزاد کردیا .
فرشتے جناب زہرا کی خدمت میں
قطب راوندی نے کتاب الخرائج میں جناب سلمان فارسی سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت فاطمہ کے گھر میں تھا ، میں نے دیکھا کہ بی بی چکی پیس رہی ہیں اور جو کا آٹا تیار کر رہی ہیں ، میں نے چکی کے دستے کو دیکھا تو مجھے خون آلود نظر آیا ۔ امام حسین جو کہ اس وقت طفل شیر خوار تھے وہ بھوک کی وجہ سے بلک رہے تھے ۔ میں نے عرض کی : بی بی ! آپ اتنی زحمت کیوں اٹھا رہی ہیں جب کہ آپ کے پاس خادمہ فضہ موجود ہے ؟ حضرت فاطمہ نے فرمایا : رسول خدا نے مجھے نصےحت کی تھی کہ گھر کے کام ایک دن میں کروں اور ایک دن فضّہ کرے ، فضّہ نے کل کام کیا تھا اور آج میری باری ہے ، سلمان یہ سن کر عرض کرتے ہیں کہ بی بی میں بھی تو آپ کا غلام ہوں ۔ میں آپ کی خدمت کے لئے آمادہ ہوں ، آپ چاہیں تو میں آپ کے بجائے چکی پیسنے کو تیار ہوں اور اگر آپ چکی پیسنا چاہیں تو میں حسین کو اٹھاتا ہوں ۔ بی بی نے فرمایا : میں حسین کی بہتر طور پر نگہداشت کر سکتی ہوں ۔ میں حسین کو اٹھاتی ہوں اور تم چکی چلاؤ۔ سلمان کہتے ہیں کہ میں نے کچھ دیر تک چکی چلائی اور جو کا آٹا پیستا رہا پھر اذان کی آواز سن کر میں نماز کے لئے مسجد کی طرف چلا آیا ، رسول اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی ، نماز کے بعد میں نے حضرت علی کو ماجرا سنایا ، حضرت علی یہ ماجر اسن کر رودئےے اور مسجدسے اٹھ کر چلے گئے ، تھوڑی ہی دیر بعد علی مسکراتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے، رسول خدا نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : میں فاطمہ کے پاس گیا اور وہاں جا کر دیکھا کہ فاطمہ سوئی ہوئی ہے اور حسین اس کے سینے پر سو رہا ہے اور چکی خود بخود چل رہی ہے یہ سن کر رسول خدا مسکرائے اور فرمایا! یا علی اما علمت انّ للہ ملائکۃ سیارۃ فی الارض یخدمون محمد وآل محمد الی ان تقوم الساعۃ اے علی ! کیا تمہیں نہیں معلوم ،کہ اللہ کے کچھ فرشتے زمین پرگردش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ محمد وآل محمد کی خدمت کریں ، اور وہ روز قیامت تک محمد وآل محمد کی خدمت کرتے رہیں گے .
روایت میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن پیامبر اکرم حضرت علی کے گھر تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ علی و فاطمہ دونوں مل کر چکی چلارہے ہیں تو پیامبر نے بی بی سے فرمایا :بیٹی اٹھو۔ سیدہ اٹھیں تو پیامبر اکرم ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور چکی چلانے میں علی کی مدد کرنے لگے .
غذائے زہرا کی برکت :
بعض کتبِ مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری سے یہ روایت ہے کہ چند دنوں سے رسول خدا مسلسل فاقے کر رہے تھے۔ آپ نے اپنی ازواج سے غذا طلب کی تو کسی بھی زوجہ کے گھر میں کھانا موجود نہ تھا ، پھر آپ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے اور ان سے فرمایا :کہ میں کئی روز سے بھوکا ہوں اگر تمھارے پاس کوئی طعام ہے تو مجھے بھی کھلاؤ۔
حضرت فاطمہ نے عرض کی : میں آپ پر قربان ہوجاؤںمیرے گھر میں بھی فاقہ ہے اور ہمارے پاس کھانے کی چیز موجود نہیں ہے ؛ یہ جواب سن کررسول اکرم واپس تشریف لے گئے اسی اثناء میں کسی ہمسائے نے دو روٹیاں اور گوشت حضرت سیدہ کے گھر میں بطور ہدیہ بھیجا ، حضرت زہرا نے اس ہدیہ کو قبول فرمایا اور ایک برتن میں وہ غذا رکھ کر اسکے اوپر کپڑا ڈالا اور فرمایا : میں رسول خدا کو اپنی ذات اور اپنے تمام اہل خانہ پر مقدم رکھوں گی ، پھر آپ نے حسنین کو رسول خدا کے پاس بھیجا اور انہیں دعوت دی ، رسولخدا تشریف لائے تو بی بی نے تمام واقعہ بیان کیا پیامبر اکرم نے فرمایا : وہ برتن میرے قریب لاؤ ۔ جب برتن آپ کے سامنے رکھا گیا تو آپ نے اس کے اوپر سے کپڑا اٹھایا تو وہ برتن روٹیوں اور گوشت سے لبریز دکھائی دیا. جابر کہتے ہیں کہ جب میں نے کھانے پر نظر کی تو مجھے تعجب ہوا اور میں نے جان لیا کہ یہ نبوت کا ایک معجزہ ہے ، میں نے خدا کی حمد و ثنا کی اور پیامبر پر درود بھیجا ، رسول خدا نے اپنی بیٹی سے فرمایا : یہ غذا کہاں سے آئی ہے ؟بی بی نے عرض کی : اللہ کی طرف سے یہ غذا آئی ہے ، یقینا خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے .
رسول خدا نے ایک شخص کو حضرت علی کے بلانے کے لئے روانہ کیا ۔ تھوڑی دیر میں علی آئے ، پھر رسول خدا اور حضرت علی و حضرت فاطمہ اور حسنین نے وہ غذا تناول کی پھر آپ نے اپنی تمام ازواج کے گھروں میں وہ کھانا بھیجا سب نے سیر ہو کر کھایا لیکن وہ برتن بدستور کھانے سے بھرا رہا ؛ حضرت فاطمہ نے فرمایا !کہ میں نے وہ غذا اپنے ہمسایوں کے گھروں میں بھیجی ، خداوند عالم نے اس غذا میں اس طرح برکت پیدا کردی تھی جیسا کہ جناب مریم کے لئے برکت نازل فرمائی تھی.
عبادت حضرت زہرا :
حسن بصری کاقول ہے کہ امت میں فاطمہ سے بڑا کوئی عا بد نہیں گزرا ۔ آپ اتنی عبادت کرتی تھیں کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتے تھے رسول اکرم نے ایک بار حضرت فاطمہ سے پوچھا : عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے ؟ بی بی نے جواب میں عرض کیا کہ : ان لا تری رجلا و لا یراھا رجل وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اس کو دیکھے .
پیغمبر اکرم(ص) نے جیسے ہی اپنی دختر کا یہ جواب سنا تو آپ نے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور یہ آیت پڑھی '' ذریۃ بعضھا من بعض ''وہ ایک ایسا خاندان ہے جو [ فضیلت میں]ایک دوسرے سے تھے ۔آل عمران۔٣٤.
حضرت امام حسن کا بیان ہے کہ ایک شبِ جمعہ میں نے اپنی والدہئ ماجدہ کو محراب عبادت میں دیکھا ، وہ تمام رات رکوع و سجود میں مصروف رہیں، یہاں تک کہ سفیدی سحر نمو دار ہوئی اس دوران میری والدہ مؤمنین ومؤمنات کے نام لے کر ان کے حق میں دعا کرتی رہیں مگر انہوں نے اپنے لئے کوئی دعا نہ کی ۔ میں نے کہا اماں جان ! آپ نے اپنے لئے دعا نہیں مانگی ؟بی بی نے فرمایا : یا بُنیّ الجار ثم ّ الدار ؛ بیٹا پہلے ہمسائے پھر اپنا گھر .
شیخ صدوق بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا سے سنا ۔''روز جمعہ ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس میں جو بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول کرتا ہے اور اس کی حاجت قبول فرماتا ہے '' ، میں نے پوچھا :کہ وہ کون سی گھڑی ہے ؟ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا : جس وقت سورج آدھا غروب ہو چکا ہواور آدھا ظاہر ہو ۔حضرت فاطمہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ چھت پر چڑھ جاؤ اور جب دیکھو کہ سورج افق مغرب میں آدھا ڈوب جائے تو مجھے اطلاع کرنا میں اس وقت خدا سے دعا مانگوں گی ۔
روایات میں ہے کہ جب بی بی محراب عبادت میں مصروف عبادت ہوتی تھیں تو آپ کا نور اہل آسمان کے لئے اس طرح جگمگاتاتھا جیسے ستاروں کا نور زمین والوں کے لئے جگمگاتا ہے .
کنیز کا مطالبہ:
شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے بنی سعد کے ایک شخص سے فرمایا : کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھے فاطمہ کے بارے میں کچھ سناؤں؟ آپ نے فرمایا حضرت فاطمہ اگر چہ رسول خدا کی محبوب ترین شخصیت تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اس قدر مشک اٹھائی تھی کہ ان کے سینے پر مشک کے نشان پڑ چکے تھے اور انہوں نے اتنی بار جھاڑو دی کہ ان کے کپڑے غبار آلود ہو گئے اور انہوں نے چولہے میں اس قدر آگ جلائی کہ ان کے کپڑوں کی رنگت دھوئیں سے تبدیل ہو گئی ۔ الغرض انہوں نے میرے گھر میں رہ کر بڑی تکلیفیں برداشت کی ۔ میں نے ان سے کہا : آپ اپنے والد کے پاس جا کر ایک کنیز کا مطالبہ کریں جو کہ آپ کے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹا سکے تو یہ بہتر ہوگا ، حضرت فاطمہ اپنے والد کے پاس گئیں ، وہاں انہوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ وہ کچھ کہے بغیر واپس آگئیں . رسول خدا نے محسوس کیا کہ فاطمہ کسی ضرورت کی وجہ سے آئیں تھیں لیکن اپنی ضرورت بیان کئے بغیر واپس چلی گئیں ، پھر دوسرے دن پیغمبر(ص) صبح کو ہمارے گھر تشریف لائے اور اپنی عادت کے مطابق پہلے سلام کیا ، میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا '' یا رسول اللہ !آپ پر سلام ہو ، حضور تشریف لے آئے اور ہمارے قریب آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :فاطمہ ! کل تم میرے پاس آئی تھیں ، بتاؤتمہیں کیا ضرورت در پیش تھی ؟ فاطمہ نے حیا کی وجہ سے کچھ نہ کہا ، مجھے خوف محسوس ہوا کہ اگرمیں نے جواب نہ دیا تو آنحضرت واپس چلے جا ئیں گے ۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ میں آپ کو بتاتا ہوں ، فاطمہ نے اتنا پانی بھرا کہ ان کے سینے پر مشک کے داغ پڑ گئے ہیں اور اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھو ں پر آبلے پڑ گئے اور انہوں نے اتنی جھاڑ ودی کہ ان کا لباس غبار آلود ہوگیا اور انہوں نے اتنا چولہا جلایا کہ ان کے کپڑوں کی رنگت بدل گئی ، لہذا میں نے ان سے کہا کہ تم اپنے لئے ایک کنیز طلب کرو تا کہ تمہیں امور خانہ داری میں سہولت ہو جائے یہ سن کر پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :کیا تم چاہو گے کہ میں تم کو ایسی چیز کی تعلیم دوں جو تمہارے لئے کنیز سے بہتر ہوں ؟ اور وہ یہ ہے کہ جب تم سونے کے لئے بستر پر جاؤ تو ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ، ٣٣ مرتبہ الحمدللہ ، اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہو ۔ اس وقت فاطمہ زہراء(س) نے سر بلند کیا۔ اور تین بار کہا '' رضیت عن اللہ و رسولہ '' میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوں .
کتابِ مناقب میں ابوبکر شیرازی (جو کہ ایک سنی عالم ہیں )سے منقول ہے کہ جب حضرت زہرا نے اپنا حال پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں بیان کیا اور ان سے کنیز کا تقاضا کیا تو پیغمبر اکرم(ص) رو پڑے اور اس وقت آپ نے فرمایا :فاطمہ !مجھے اس خدا کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ، اس وقت مسجد میں چار سو ایسے افراد ( اصحاب صفہ) موجود ہیں جن کے پاس کھانے کے لئے غذا موجود نہیں ہے اور پہننے کے لئے لباس موجود نہیں ہے ۔اگر مجھے تمہاری فضیلت کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں تمہاری درخواست ضرور قبول کرتا ، اے فاطمہ !میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہارا اجر و ثواب تم سے جدا ہوجائے اور تمہارے بجائے تمہاری کنیز کو نصیب ہو .
تفسیر ثعلبی میں امام محمد باقر سے اور تفسیر قشیری میں جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت فاطمہ کو موٹا اون کا لباس پہنے ہوئے دیکھا ۔ وہ چکی چلا رہی تھیں ، اور اسی وقت اپنے ایک بچے کو دودھ بھی پلا رہی تھیں ، یہ منظر دیکھ کر آنحضرت کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور فرمایا : ''یابنتاہ تعجلی مرارۃ الدنیا بحلاوۃ الآخرۃ '' پیاری بیٹی !آج آخرت کی حلاوت کے لئے دنیا کی تلخی کو برداشت کرلو ۔ بی بی نے یہ سن کر کہا : '' یا رسول اللہ الحمد للہ علیٰ نعمائہ و الشکر علیٰ الائہ ''
یا رسول اللہ ! اللہ کی نعمتوں پر حمد اور اس کی عطا پر اس کا شکر ہے .
حضرت فاطمہ کی کنیز کا تکلم بالقرآن:
ابوالقاسم قشیری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ کی کنیز حضرت فضّہ سفر حج میں اپنے کاروان سے بچھڑ گئیں اور انہیں بیابان میں تنہا سفر کر نا پڑ ا، عبداللہ بن مبارک جو کہ ان کی طرح قافلے سے الگ ہوگئے تھے ، اتفاق سے انہیں حضرت فضّہ نظر آئیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے بیابان میں ایک خاتون کو دیکھا ، تو میں نے ان سے کہا کہ تم کون ہو ؟ حضرت فضہ : ۔و قل سلام فسوف یعلمون۔زخرف ۔٨٩ '' سلام کہو پھر عنقریب وہ جان لیں گے''، اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ سلام کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔
عبداللہ نے خاتو ن کو سلام کیا اور پوچھا : آپ بیابان میں کیا کر رہی ہیں ؟اور کیا آپ کو بھٹکنے کا اندیشہ نہیں ہے ؟
حضرت فضہ : و من یھد اللہ فما لہ من مضل، زمر۔٣٧جسے خدا ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون کا خدا پر گہرا یقین ہے ۔ میں نے پوچھا کہ آ پکا تعلق انسانوں سے ہے یا جنا ت سے ہے ؟
حضرت فضہ : یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد ، اعراف ۔٣١، اے بنی آدم !ہر نماز کے وقت زینت کرو، اس آیت سے میں نے سمجھاکہ خاتون کا تعلق بنی آدم سے ہے ،میں نے پوچھا : آپ کہاں سے آرہی ہے ؟حضرت فضہ : ینادون من مکان بعید: (فصلت۔٤٤)انہیں دور دراز مقام سے بلایا جاتا ہے ، اس آیت سے میں سمجھ گیا کہ خاتون کسی دوردراز مقام سے آرہی ہیں ِ ، میں نے پوچھا : آپ کس شہر سے آ رہی ہیں ؟ حضرت فضہ کہتی ہیں : یا اھل یثرب لا مقام لکم (احزاب ۔١٣)''اے اہل یثرب تمہارا ٹھکانہ کہیں نہیں ہے''۔ اس آیت سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ خاتون مدینہ سے آ رہی ہے ، میں نے پوچھا کہ آپ کہاں جانا چاہتی ہیں ؟حضرت فضہ : وللہ علیٰ الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (آل عمران ۔٩٧)جو حج کی استطاعت رکھتا ہو اس پر حج واجب ہے ۔ اس آیت سے مجھے پتہ چلا کہ حج کرنے جارہی ہیں ، میں نے پوچھا کہ آپ کو کاروان سے بچھڑے ہوئے کتنے دن ہوئے ہیں ؟حضرت فضہ : و لقد خلقناالسموات و الارض فی ستۃ ایام (ق۔٣٨)بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ اس خاتون کو قافلے سے جدا ہوئے چھ دن ہوئے ہیں ، میں نے پوچھا کہ کیا آپ اس وقت کچھ کھانا پسند کریں گی ؟حضرت فضہ : وماجعلناہم جسداًالا یاکلون الطعام (انبیائ۔٨)اور ہم نے انہیں ایسے جسم نہیں دیئے کہ وہ طعام نہ کھاتے ہوں ، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون کھانا کھانا چاہتی ہیں میں نے انہیں کھانا کھلایااور پھر ان سے کہا کہ جلدی کریں اور تیز تیز قدم بڑھائیں۔ حضرت فضہ :لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا (بقرہ۔٢٨٦)اللہ کسی بھی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون تھک چکی ہیں اور ان میں زیادہ تیزچلنے کی سکت نہیں ہے ، میں نے اس سے کہا کہ آپ میرے ساتھ اونٹ پر سوار ہوجائیں، خاتون :لو کان فےھماآلھۃ الا اللہ لفسد تا . ( انبیا ٢٢ ) اگر زمین وآسمان میں زیا دہ خدا ہوتے تو زمین وآسمان تباہ ہو جاتے اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ خاتوں میرے ساتھ سوار ہونا پسند نہیں کر تیںپھر میں اونٹ سے اترااور انہیں اکیلا سوار کیا ، جب وہ اونٹ پر بیٹھ گئیں تو انہو ں نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی : سبحان الذی سخر لناھذا و ما کنا لہ مقرنین (زخرف۔١٣) پاک وبے نیاز ہے وہ خداجس نے اس سو اری کو ہمارے لئے مسخر کر دیا ہے ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں لا سکتے تھے پھر ہم چلتے ہو ئے کاروان سے جا ملے تو میں نے پوچھا کہ اس قافلہ میں تمہاراکوئی رشتہ دار بھی موجود ہے خاتون نے جواب میں یہ آیات پڑھی :یا داؤد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض (ص۔٢٦) ا ے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، ۔ومامحمد الا رسول (آل عمران۔١٤٤)اور محمد بس رسول ہیں ۔ یا ےحےیٰ خذالکتاب بقوۃ(مریم۔١٢)،اے ےحییٰ!کتاب کو مضبوطی سے تھامو،۔یاموسیٰ انّی انا اللہ (اے موسیٰ بے شک میں اللہ ہوں )(قصص۔٣٠) چنانچہ میں نے داؤد، محمد ،ےحی ٰاور موسیٰ کو پکارا تو چار جوان اس قافلہ سے نکل کر خاتون کے پاس آئے ، پھر میں نے اس خاتون سے پوچھا کہ یہ جوان آپ کے کیا لگتے ہیں ؟ خاتون نے کہا: المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا (الکہف۔٤٦) ما ل ا ور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہے ، س آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ خاتون ان جوانوں کی والدہ ہیں ، پھر اس خاتون نے اپنے بچوں کو صدا دے کر فرمایا:یا ابت استأجرہ ان خیر من استأجرت القوی الامین (القصص٢٦)یعنی ابا جان آپ اس کو اجرت دیں کیونکہ آپ جسے اجرت دینگے وہ قوی اور امین ہے ،اس آیت سے مجھے معلوم ہوا کہ خاتون اپنے بیٹوں کو حکم دے رہی ہیں کہ مجھے اس زحمت پر اجرت دیں ، چنانچہ ان نو جوانوں نے کچھ رقم میرے حوالے کی تو ان کی والدہ نے کہا : واللہ ےضاعف لمن یشاء اللہ جس کے لئے چاہتا ہے بڑھاتا ہے (بقرہ ٢٦١) اس آیت سے میں نے اندازہ لگایاکہ خاتون اپنے بچوں کو اس رقم سے دوگنی رقم دینے کا کہہ رہی ہیں ، چنانچہ ان نوجوانوں نے مجھے زیادہ رقم دی ، جب میں ان سے جدا ہونے لگا تو میں نے ان سے پوچھاکہ یہ خاتون کون ہیں ؟ ان نوجوانوں نے مجھے بتایاکہ یہ ہماری والدہ فضّہ ہیں جو کنیز زہرا ہیں اور بیس سال سے قرآن کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتی ہیں .
حضرت فاطمہ اور ان کے شیعوں کا مقام :
ابوجعفر طبری نے کتاب بشارۃ المصطفیٰ میں ھمام ابی علی سے روایت کی ہے کہ میں نے کعب الاحبا ر سے کہا ؛ تم شیعا ن علی بن ابی طالب کے متعلق کیا نظر یه رکھتے ہو ؟ اس نے جواب میں کہا ؛ اے ہمام ، میں نے ان کی صفات قرآن مجید میں پڑھی ہیں وہ خدا کا گر وہ اور خدا کے دین کے مد د گار اور خدا کے ولی کے پیر و ہیں وہ خدا کے خاص اور محترم بند ے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں انپے دین کے لئے چن لیا ہے اور انہیں بہشت بر یںکے لئے پیدا کیا ہے وہ جنت الفردوس کے بلند وبالا محلات میںہوں گے وہ ایسے مکا نات میں رہا ئش پذیر ہو ںگے جو کہ مر وار ید( موتیوں)سے بنے ہوئے ہوں گے وہ مقر بان ابرار میں ہوں گے اور سر بمہر شراب طہو ر نوش کر یں گے اس شراب کا تعلق جنت کے اس چشمہ سے ہو گا جسے تسنیم کہا جاتا ہے اور وہ ان کے لئے مخصوص ہوگا یہ وہ چشمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دختر اور حضرت علی کی زوجہ فاطمہ زہراء(س) کو عطا کیا ہے ، یہ چشمہ ایک ستون سے جاری ہوگا کہ جس ستون کا قبہ ٹھنڈک میں کافور ، ذائقہ میں زنجبیل اور خوشبو میں مشک کی طرح سے ہوگا ، پھراس چشمہ کا پانی چھوٹی چھوٹی نہروں میں بہتا ہوگا ، حضرت فاطمہ کے محبین اور ان کے شیعہ اس سے پانی پئیں گے ، اس قبہ کے چار ستون ہوں گے اس کا ایک ستون مروارید کا ہوگا اور اس سے ''طہور'' نامی چشمہ جاری ہوگا ، اس قبہ کا ایک اور ستون سبز زمرد کا ہوگا اور اس سے دو چشمے (شراب طہور، شہد) جاری ہونگے ، پھر یہ چشمے جنت میں نےچے کی طرف بہیں گے ، لیکن تسنیم کا پانی جنت کے زیریں طبقہ میں نہیں بہے گا ، اس کا پانی صرف جنت کے بلند و بالا حصے تک ہی محدود رہے گا ،جس کو صرف خاص بہشتی ہی پینے کی سعادت حاصل کریں گے اور وہ خوش نصیب صرف شیعیان اور محبانِ علی ہی ہوں گے ،قرآن مجید کی ان آیات کی یہی تفسیر ہے ، یسقون من رحیق مختوم ۔ختامہ مسک وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون۔ ومزاجہ من تسنیم۔عیناً یشرب بھاالمقربون(مطففین٢٥ تا٢٨)انہیں سر بمہر خالص شراب سے سیراب کیا جائے گا ، جس کی مہر مشک کی ہوگی اور ایسی چیزوں میں شوق کرنے والوں کو آپس میں سبقت اور رغبت کرنی چاہئے،اس شراب میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی،یہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب بارگاہ بندے پیتے ہیں .پھر کعب الاحبارنے کہا خدا کی قسم شیعوں سے صرف وہ شخص ہی محبت کرتا ہے جس سے اللہ نے عہد ومیثاق لیا ہو اس روایت کے بعد ابو جعفر طری لکھتے ہیں شیعو ں کو چاہئے کہ وہ اس حد یث کو آب زر سے تحر یر کر یں اور اسکی زیادہ سے زیادہ نقو ل تیار کریں تا کہ جنت الفردوس کے وبالا محلا ت کے وارث قرار پائیں . چو نکہ یہ روایت اہل سنت سے نقل کی گئی ہے اسی لئے مخالفین اسے شیعو ں کی خود سا ختہ روایت کہہ کر سکتے پس یه حد یث شیعو ں کے مخا لفین پر ایک حجت ہے۔
حضرت سلمان کے سوال کا جواب
طبری بشارۃ المصطفی میں کتاب کنز کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ابوذر نے کہا: سلما ن اوربلال حبشی کو میں نے دیکھا کہ وہ پیغمبر اکرم(ص) کے حضو ر میں آرہے تھے کہ اچا نک سلمان آگے بڑھے اور رسول خدا کے قدموں میں گرکر آپ کے قدموں کو بو سہ دیا پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں اس سے منع کرتے ہو ئے فرمایا'' سلمان جو کام اہل عجم اپنے بادشاہوں کے لئے کرتے ہیں تم میر ے لئے وہ کام مت کرو میں خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں اور بندوں کی طرح کھانا کھا تا ہوں اور انہیں کی طرح بیٹھتا ہوں حضرت سلمان نے خدمت پیغمبر(ص) میں عرض کیا یا رسول اللہ: میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن حضرت زہرا کو جو مقام حاصل ہوگا آپ مجھے اس سے مطلع فرمائیں پیغمبر اکرم(ص) نے مسکرا کر سلمان کی طرف دیکھا اور فرمایا اس خدا کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے فاطمہ وہ خاتون ہے جو اونٹ پر سوار ہوکر میدان حشرکو عبو ر کرے گی اس کی سواری کا سر خوف خدا سے جھکا ہوا اور آنکھیں نور خدا سے منو رہوں گی فضائل جناب سیدہ بیان کرتے ہوئے رسول خدا نے مزید فرمایا !جبرئیل اس اونٹ کی دائیںجانب اور میکا ئیل اس کی بائیں جانب اور علی اس کے آگے آگے اور حسن وحسین اسکے پیچھے پیچھے چلیں گے خدا وند عالم اس کا محا فط ونگہبا ن ہوگا یهاںتک کہ وہ صحن محشر کو عبور کر نے لگیں گے۔ ان لمحات میں خداوندعالم کی طرف سے نداآئے گی: اے تمام مخلوقات !اپنی آنکھیں بند کرو اور انپے سروں کو جھکالو کیو نکہ اب تمہارے پیغمبر(ص) کی بٹےی اور تمہا رے امام علی کی زوجہ اور حسن وحسین کی والدہ فاطمہ پل صراط سے گزر رہی ہیں اس وقت فاطمہ کے سر پر دو صاف اورشفاف سفید چادریں ہوں گی اور جب فاطمہ جنت میں پہنچ جائیں گی اور اللہ تعا لی کی ان نعمات کوملا حظہ کریں گی جو خدا نے ان کیلئے آمادہ کی ہیں تو وہ کہیں گی :''بسم اللہ الرحمن الرحیم۔الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور ۔الذی احلنا دار المقامۃ من فضلہ لا یمسنا فیہا نصب و لا یمسنا فیہا لغوب'' ہر قسم کی تعریف اللہ کیلئے مخصوص ہے جس نے ہم سے رنج وغم کو دور کیا بیشک ہمارا پرورردگار بہت زیادہ بخشنے والا اور قدردان ہے اس نے انپے فضل وکرم سے ہمیں رہنے کی ایسی جگہ پرپہونچادیا ہے جہاں نہ کوئی تھکن ہم کو چھوسکتی ہے اور نہ کوئی تکلیف ہم تک پہنچ سکتی ہے پھر اللہ تعالیٰ فاطمہ کی طرف یہ وحی کرے گا:اے فاطمہ تو جو چاہے مجھ سے سوال کر میں تجھے عطا کروں گا اور تجھے راضی کروں گا اس وقت فاطمہ بار گاہ احدیت میں عرض کریں گی '' خدا یا!تو ہی میری امید ہے بلکہ میری امید سے بھی بلند و بالاہے میں تیری بارگاہ میں یہ سوال کرتی ہوں کہ میرے محبوں اور میری اولاد کے محبوں کو آتش دوزخ میں عذاب نہ دینا '' اللہ تعالیٰ وحی کرے گا : ''اے فاطمہ !مجھے اپنی عزّت و جلال کی قسم !زمین و آسمانوں کی خلقت سے دو ہزار سال قبل میں اپنے ساتھ یہ قسم کھا چکا ہوںکہ میں تجھ سے محبت کرنے والوں کو اورتیری اولاد سے محبت کرنے والوں کوآگ میں عذاب نہیں دوں گا.
زہدِ فاطمہ کی ایک جھلک:
سید ابن طاؤس نے ابو جعفر احمد قمی کی کتاب ''زہدالنبی'' سے یہ اقتباس کیا ہے ، جب سورہ حجر کی یہ دو آیتیں نازل ہوئیں۔اور جہنم ایسے تمام لوگوںکی و عدہ گاہ ہے اس کے سات دروازے ہیں اور ہر درواز ے کے لئے ایک حصہ تقسم کردیا گیا ہے ( الحجر . ٤٣ .٤٤) یه آیات سن کر پیغمبر اکرم(ص) بہت زیاہ روئے آنحضرت کو روتے دیکھ کر صحابہ بھی ر ونے لگے صحابہ کو رونے کی وجہ کا کوئی علم نہیں تھا پیغمبر اکرم(ص) اتنے غمگین ہوئے کی کسی کو آپ سے پو چھنے کا یارانہ ہوتا تھا حضرت رسول خدا کی یہ عادت تھی کہ آپ جب بھی اپنی لخت جگر کو دیکھتے تھے تو خوش ہوجاتے تھے اسی لئے ایک صحابی حضرت سیدہ کے گھر کی طرف چل پڑاتاکہ اس رنجیدہ ماحول کو کسی طرح سے ختم کیا جاسکے جب وہ حضرت سیدہ کے دروازے پر پہنچا تو اس نے دیکھاکہ آپ چکی پیس رہی ہیں اور اس کے ساتھ قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کررہی ہیں '' وماعند اللہ خیر وابقی '' اور جو کچھ خدا کے ہاں ہے وہ بہترہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے'' (القصص .٦٠ . الشوریٰ . ٦ ٣ ) اس صحابہ نے آپ کو سلام کیا اور آپ کو رسول خدا کے رونے کی خبر دی یہ خبر سنتے ہی حضرت سیدہ بلاتاخیراٹھیں آ پ نے اپنی وہ پرانی چادرسر پر رکھی جس میں لیف خرما کی بارہ گر ہیں لگی ہوئی تھیں اور انپے بیت الشرف سے باہر آئیںحضرت سلمان فارسی نے حضرت سیدہ کو اس حالت میں دیکھاتو ان کی چیخ نکل گئی اور رو کر کہا ہائے افسوس .قےصروکسر ی ٰ تو سندس وحریر کا لباس پہنیں لیکن پیغمبر(ص) خدا کی بٹیی ایک بو سیدہ چادرپہنے جس میں متعددگرہیںلگی ہوئی ہوں الغرض حضرت سیدہ پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ: سلمان میرے لباس پر تعجب کر رہا ہے جب کہ مجھے اس خداوندعالم کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ہمیں تو پورے پانچ سال ہوچکے ہیں کہ ہمارے بچھانے کا گد ابس ایک پوست گو سفند پر مشتمل ہے جس پر ہم رات کو آرام کرتے ہیں اور دن کے وقت ہمارا اونٹ اس پوست پر گھاس کھاتا ہے اور ہمارا تکیه لیف خرما سے بھر اہو ہے .
پیغمبر اکرم(ص) نے سلمان سے فرمایا :''ان ابنتی لفی الخیل السوابق'' بے شک میری بیٹی سبقت حاصل کرنے والوں کی صف سے تعلق رکھتی ہے ، پھر حضرت سیدہ نے عرض کی : اباجان! آپ کے رونے کا سبب کیا ہے ؟ اس کے جواب میں رسول خدا نے سورہئ حجر کی مذکورہ دو آیتیں تلاوت فرمائیں ، جب حضرت زہرا نے جہنم کا نام سنا تو آپ چہرے کے بل زمین پر گر پڑیں اور فرمانے لگیں : ''الویل ثم الویل لمن دخل النار'' ، افسوس پھر افسوس ہو اس پر جو دوزخ میںچلا جائے۔ جب سلمان نے ان آیات کو سنا تو کہا :کاش میں ایک گوسفند ہوتامیرے خاندان والے مجھے ذبح کرتے اور میری کھال اتارتے لیکن میں دوزخ کا نام نہ سنتا ۔. ابو ذر نے کہا: کاش میری ماں بانجھ ہوتی تاکہ میں آگ دوزخ کا نام نہ سنتا .
مقداد نے کہا:اے کاش میں بیابا ن کا ایک پرندہ ہوتاکہ نہ میرا حساب ہوتا نہ مجھ پر عقابِ الہی ہوتا۔اور نہ ہی میں آگ جہنم کانام سنا ہواہوتا.
حضرت علی نے کہا : اے کاش! جنگل کے درندے میر ے جسم کو پھاڑ لیتے ، اے کاش ! میری ماں مجھے نہ جنا ہوتااور میں نے دوزخ کا نام نہ سنا ہوتا، پھر حضرت علی نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھااور رو کر کہنے لگے:'' وابعد سفراہ ، واقلۃ زادہ فی سفرالقیامۃ.....''ہائے طول سفر اورہائے سفر قیامت کے لئے زاد راہ کی کمی ، ہائے لوگ آگ کی طرف جا رہے ہوںگے اور آگ ان کو گھیرے میں لے گی ، وہ ایسے بیمار ہیں جن کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں اور وہ ایسے زخمی ہیں جن کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ان کی خوراک اور ان کا پانی آگ کا ہوگا اور وہ آگ کے شعلوں میں غوطہ ور ہوں گے،جب کہ وہ دنیا میں سوتی لباس پہنتے تھے اور دوزخ میں آگ کے شعلے ان کا لباس ہوگا، دنیا میںوہ لوگ اپنی بیویوں سے ہم آغوش ہوتے تھے ،لیکن دوزخ میں شیاطین سے ہم آغوش ہوں گے .
پیغمبر اکرم(ص) اور ان کی بیٹی کا زہد:
پیغمبر اکرم(ص) کا یہ دستورتھاکہ جب آپ کسی سفر کے سلسلے میں باہر جاتے تو سب سے آخر میںحضرت فاطمہ سے خدا حافظی کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ملاقات کرتے تھے اور اس طرح ان سے دوری کے لمحات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
ایک دفعہ جب آپ سفر جنگ سے مدینہ واپس تشریف لائے تو حسب سابق اپنی بیٹی کے گھر گئے ، جب دروازے پر پہونچے تو دیکھا کہ دروازے پر مخصوص پردہ لگا ہوا ہے اور آپ نے اپنے نواسوں (حسن و حسین )کو دیکھا ، جن کے ہاتھوں میں چاندی کے دست بند تھے ، پیغمبر(ص) یہ دیکھتے ہی وہاں سے چلئے گئے اور گھر میں تشریف نہ لائے ، حضرت سیدہ کو اپنے والد کے اس عمل کا پتہ چلا تو آپ سمجھ گئیں کہ وہ اس پردہ اور حسنین کے دست بند کو دیکھ کر واپس چلے گئے ہیں ۔آپ نے وہ پردہ اتارااور اپنے شاہزادوں کے ہاتھوں سے چاندی کے دست بند اتارے اور اپنے شاہزادوں کے ہاتھ وہ پردہ اور دست بند رسول خدا کے حضور روانہ فرمائے ، رسولخدا نے حسنین سے پردہ اور چاندی کے دست بند لے لئے اور اپنے ایک غلام جس کا نام ثوبان تھا سے فرمایا کہ یہ فلاں جگہ لے جاکر فروخت کرو اور اس کی قیمت میں سے میری بیٹی فاطمہ کے لئے چوب عصب کا ایک گلوبند اور حسنین کے لئے چوب عاج کے دست بند خریدو، فان ھولاء اھل بیتی و لا احب ان یاکلوا طیباتھم فی حیاتھم الدنیا: کیونکہ یہ میرے اہل بیت ہیں اور میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنی نیکیوں کا بدلہ اس دنیا میں ہی حاصل کرلیں .
حضرت فاطمہ اور نوشتہئ پیغمبر کا احترام:
شیخ جلیل ابو جعفر طبری اپنی کتاب ''الدلائل'' میں ابن سعود کی سند سے رقم طراز ہیں کہ : ایک شخص حضرت سیدہ کے دروازہ پر حاضر ہوا اور اس نے کہا : کیا آپ کے پاس رسول خدا کی کوئی نشانی بطور یاد گارموجود ہے جس کی میں زیارت کر کے ثواب حاصل کر سکوں ؟ بی بی نے اپنی کنیز سے فرمایا : وہ لکھی ہوئی تختی لے کر آؤ؛ کنیز نے تلاش شروع کی لیکن اسے تختی کہیں دکھائی نہ دی ، بی بی نے کنیز سے فرمایا: ویحک اطلبیھا فانھاتعدل عندی حسنا و حسینا'' تجھ پر افسوس ہو اسے تلاش کر کیونکہ وہ تختی میری نظر میں حسن اور حسین کے برابر ہے ،
کنیز ڈھونڈنے لگی اوربالا ۤخراسے پیدا کیا اور اسے لے کر سیدہ کے حوالے کیا ، اس تختی پر یہ عبارت تحریر تھی ۔رسول خدا نے فرمایا: وہ شخص مؤمن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو ، جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کو نہ ستائے ، جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو ا سے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا خاموش ہو جائے ، اللہ تعالیٰ بھلائی طلب کرنے والے ، برد بار اورصلہ رحمی کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر گالی بکنے والے بد زبان ، بے شرم اور زیادہ سوال کرنے والے اور سوال میں اصرار کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے ، کیونکہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے اور گالی دینا بے شرمی ہے اور بے شرم کا ٹھکانہ جہنم ہے .
مصائب حضرت زہرا کی پیشن گوئی :
شیخ صدوقنے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اہل بیت پر ڈھائے جانے والے مصائب کاتفصیلی تذکرہ کیا ہے ، اور وہ روایت یہ ہے :
میری بیٹی فاطمہ ،تمام زنان اولین و آخرین کی سردار ہیں اور وہ میرا پارہئ تن ہے اور میری آنکھوں کا نور اور میرا میوہ دل ہے ،اور وہ میر ی روح ہے جو کہ میرے پہلو میں دھڑکتی ہے ، وہ انسانی روپ میں حورہے ، وہ جب بھی خدا کی عبادت کے لئے محراب میں کھڑی ہوتی ہے تو اس کا نور اہل آسمان کے لئے ایسا چمکتا ہے جیسے کہ اہل زمین کے لئے ستاروں کا نور چمکتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتا ہے : اے میرے فرشتو ! تم میری کنیز کو دیکھوجو کہ تمام کنیزوں کی سردار ہے ، وہ اس وقت میری عبادت کے لئے میرے سامنے کھڑی ہے ، دیکھو میرے خوف سے اس کے جسم کے اعضاء کس طرح سے لرز رہے ہیں اور وہ پوری توجہ سے میری طرف متوجہ ہے ، میں تمہیں گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اس کے شیعوں کو آتش دوزخ سے آزاد کردیا ہے۔ مؤلف کہتا ہے کہ اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:میں جب بھی فاطمہ کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے ان مصائب کو یاد کرتا ہوں جو میرے جانے کے بعد اس پرآئیں گے، میں گویا اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ اس کے گھر کو پریشانی نے گھیر لیا ہے اور میرے بعد لوگ اس کا احترام نہیں کر رہے ، اس کا حق غصب کر لیا گیا ہے اسے حق میراث سے محروم کیا گیا ہے ، اس کا پہلو شکستہ ہو چکا ہے ، اس کا حمل ساقط ہوگیا ہے ، اور وہ اس وقت مجھے ''یا محمداہ''کہہ کر مدد کے لئے پکار رہی ہے ، لیکن اس کی آواز پر جواب دینے والا کوئی نہیں ہے وہ مدد طلب کررہی ہے لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا ہے ۔وہ میرے بعد ہمیشہ غمگین اور محزون ہے ،وہ کبھی سلسلہ وحی کے منقطع ہونے پر روتی ہے اور کبھی میری جدا ئی کو یاد کرکے روتی ہے اور آدھی رات کے وقت وہ گھبرا جاتی ہے کیونکہ اسے میری تلاوت قرآن کی آواز سنائی نہیں دیتی ، اور ان لمحات کو یاد کرتی ہے کہ وہ اپنے والد کی زندگی میں کس قدر محترم تھی لیکن اب اس کا احترام ملحو ظ خاطرنہیں رکھا جاتا اس وقت خدا انپے فرشتو ں کو اس کا مونس قراردے گا اور فرشتے اس سے باتیں کریں گے جیسا کہ وہ مریم سے کیا کر تے تھے اور وہ اسے آوازدے کرکہیں گے ۔''یا فاطمۃ ان اللہ اصطفاک وطھر ک واصطفا ک علیٰ نساء العا لمین یا فاطمہ اقنتی لر بک واسجدی وار کعی مع الراکعین ''۔'' اے فاطمہ اللہ نے تجھے چن لیا ہے اور تجھے پاک وپاکیز ہ بنایا ہے اور تجھے تمام جہانوںکی عورتوںسے ممتازکیا ہے اے فاطمہ اپنے پرودرگار کی عبادت کر اور سجدہ کراور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر'' . پھر میں گویایہ منظربھی انپی آنکھو ں سے دیکھ رہا ہوں کہ میری بیٹی دردمند ہے اور مریض ،اور اسے تیمادارکی ضرورت ہے،اللہ تعالیٰ ،مریم بنت عمران کواس کی تیمارداری کے لئے روانہ کرتا ہے ، اور وہ ا س کی تیمارداری کرتی ہے ، اس وقت میری بیٹی خدا کی بارگاہ میں یوں راز و نیاز کر رہی ہے ، اے میرے اللہ! میں زندگی سے سیر ہوچکی ہوں، میں تھک چکی ہوں، اہل دنیا سے میں نے بہت سے دکھ اٹھائے ہیں اب مجھے میرے والد کے ساتھ ملحق فرما''. اللہ تعالیٰ اسے مجھ سے ملحق کرے گاوہ میرے خاندان میں سب سے پہلے میرے پاس غمگین اور محزون حالت میں آئے گی کہ اس کا حق غصب کیا جا چکا ہے اور اسے شہید کیا گیا ہوگا، اور میں اس وقت خدا کے حضور عرض کروں گا: ''خدایا! جن لوگوں نے اس پر ظلم کیا ہے انہیں اپنی رحمت سے دور فرما،اور جن لوگوں نے اس کا حق غصب کیا ہے ان سے پورا بدلہ لے ، جن لوگوں نے اسے پریشان کیا ہے انہیں ذلیل و خوار فرما اور جنہوں نے اس کے پہلو کو زخمی کیا ہے اور اس کے حمل کو ساقط کیا ہے انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل فرما ''.اس وقت فرشتے میری دعا کی قبولیت کے لئے آمین کہیں گے .
Comments