مصنف: ایان شاہ: تصوف اسلام کی عارفانہ شاخ ہے۔ تصوف عالمِ اسلام کے ان گنت فرقوں کے درمیان ایک باہمی تعلق ہے، جس کے مطابق سچا مذہب سچائی کے اندر ہے۔ یعنی بدھ کی زبان میں سچ من کے اندر ہے۔ لیکن یہ اظہر من الشمس جیسی اک بدیہی حقیقت ہے کے خود تصود میں لاتعداد فرقے پائے جاتے ہیں کے جن کی تعداد سے متعلق کوئی حتمی اندازہ لگانا بھی عبث خیال کیا جاتا ہے۔ ہر فرقے کے اپنے الگ عقائد ہیں، ہر فرقہ اپنے عقیدے کو عین اسلامی بتانے کیلیے اسلام کے دیگر ظاہری فرقوں کی طرح قرآن و حدیث کا سہارا لیتا ہے۔ بیشتر صوفیانہ تحاریر میں ناستیت، مجوسیت، ویدانت کا گہرا اثر پایا جاتا ہے جس سے مختلف اسلامی صوفی مدارس متاثر ہوئے۔ لیکن اسلامی تصوف پر ہند اور یونان کی صوفیانہ و روحانی مکتبہ فکر کا بڑا گہر اثر اور امتزاج پایا جاتا ہے، کچھ صوفی راہبانہ بھی ہیں۔ یہ شاید برہمچاری، بدھمت، جینمت کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔
تصوف میں عجیب و غریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مثلاً اکثر صوفیا نظریہ حلول کے قائل ہیں، کے کائنات میں رواں دواں ایک سرمدی ہستی ان میں حلول کر گئی ہے، چنانچہ اب کائنات امور وہ سرمدی ہستی انہی میں بیٹھ کر سر انجام دے رہی ہے۔ یعنی وہ خود کو خدا بتاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی شے ان میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ خدا ان کے جسم میں تشریف فرما ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی گدھے کا تصور کرے، دن رات گدھے کے مقدس خیال میں ڈوبا رہے، تو کیا وہ گدھا ہو گیا؟ یقیناً نہیں۔ پھر ان تصوف کے نمائندوں کا کہنا ہے کے انہیں کُل کائناتی امور کا بدرجہ اتم علم ہے۔ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا علم ان کے اندر سما گیا ہے، ہستیِ مطلق نے انہیں کل کائنات کے ہر قسم کے علم کی کنجی تھما دی ہے، اور وہ علم کیا ہے؟ لاتعداد عجیب و غریب واقعات، بے سروپا باتیں، علامات، فرشتوں اور خدا سے ہمکلامی، ملاقات، ولیوں سے شبِ وصل، پیغمبروں کی غائبانہ محافل میں دو زانو ہو کر ‘تعلیم’ حاصل کرنا، غرض جنہیں عقل بے ہنگم باتیں قرار دے دے۔ اس پر طرہ یہ کے اس ‘علم’ کو خواص تک محدود رکھا جائے۔ عام نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اب ہم دیکھیں گے کے ‘تصوف’ ہے کیا؟
استخراجی و استقرائی منطق کا قاعدہ ہے جب کبھی کوئی بھی نظریہ یا فلسفہ وغیرہ پیش کیا جاتا ہے، اس کی حقانیت کی دلیل بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے جو اس کے پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہذا جو کوئی بھی اس خیال کا انکار کر دے، اس سے انکار کی دلیل طلب کرنا، بچکانہ سی بلکہ احمقانہ سی بات ہے۔ لہذا تصوف کے حق سچ ہونے کی دلیل بھی تصوف کے تمام مکتبہ فکر سے طلب کی جائے گی۔ پھر اس دلیل کو عقلی و منطقی بنیادوں پر پرکھنے کے بعد ہی قبول یا رد کرنے کا جواز پیش کیا جائے گا۔ لیکن اس سے بھی پہلے یہ دیکھتے ہیں کے تصوف ہے کیا اور آیا کہاں سے۔
جس طرح تصوف کی تعریف ناقابلِ یقین ہے، اسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی اختلافِ خیال کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ڈیوڈ وہ بیریٹ کہتے ہیں:
‘تصوف باطنی اسلام ہے لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ ہے۔ صوفیوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں میں احترام اور خوف کا ایک غیر راحت بخش جذبہ پیدا کیا۔ صوفی کے لفظ کا مطلب عربی زبان میں ‘صوف نامی کھردرا کپڑا پہننے والا’ بنتا ہے۔۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی مرتض اور باطن پرست بھی کھردرا اونی چغہ پہنا کرتے تھے۔ عربی کے ‘صفا’ یعنی پاکیزگی کے ساتھ بھی لفظ صوفی کا تعلق ہوگا۔ عبرانی میں ‘عین صوف’ کا مطلب ‘بے اختتام’ ہے جو ناقابلِ معلوم خدا کیلیے اقبالی اصطلاح تھی۔ قرآن کی صوفی تفسیر باطنی اور تشبیہاتی ہے۔ صوفیا نے تمام چیزوں سے برتر خدا کے شخصی و انفرادی وصال کی خواہش کے ذریعے خود کو رسمی اسلام کی درجہ بندیوں کے کنٹرول سے ماوراء کر لیا۔
کئی صدیوں تک تادیب کے بعد تصوف کو بارہویں اور تیرہویں صدی میں قبولیت اور حتیٰ کے احترام ملا۔ باہر والوں کیلیے تصوف کی بڑی وجہِ شہرت ‘گھومنے والے درویش’ ہیں جو رقص کرتے کرتے حالتِ کیف میں چلے جاتے ہیں۔۔۔ غزالی نے ایک موقع پر تصوف کی وجہ تسمیہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس لفظ کے اشتقاق کے متعلق تین آراء ہیں۔ بعض کے مطابق صحابہ میں سے جو لوگ اہلِ صفہ کہلاتے تھے، یہ ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا ماخذ صفا ہے۔ بعض کے نزدیک صف، لیکن قاعدہ اشتقاق کی رو سے یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔ شبلی کہتے ہیں تصوف صوف سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی پشمینہ کے ہیں۔ لیکن پشمینی پوش ہونا اس فرقے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ علی ہجویری کی رائے ان سب سے مختلف ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق لباس صوف، اہلِ تصوف کا امتیازی نشان تھا۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اصحاب رسول کا ذکر کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب لباس صوف کو محبوب رکھتے تھے۔ شیخ سہروردی بھی اسی خیال کی تاکید کرتے ہوئے حسن بصری کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ستر اہلِ صفا کو دیکھا تھا (گویا وہ صوفی تھے) جن کی پوشاک صوف تھی۔ پھر کشف المحجوب میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہمیشہ صالحین اور زہاد اور متقین اور عباد کو صوف کا ہی لباس مرغوب اور مطبوع رہا ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ گر عہدِ نبوی کے عزلت نشیں اور زہد پسند بزرگوں کو اولین صوفیاء میں تسلیم کر لیا جائے تو تصوف آسانی کے ساتھ صوف سے مشتق قرار دیا جا سکتا ہے۔ مشترقانِ یورپ نے بھی زیادہ تر اسی نظریہ کی حمایت کی ہے۔ لیکن تصوف کا لفظ اصل میں ‘سین’ سے تھا۔ جس کا مادہ سوف تھا۔ جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں۔ دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔ اور چونکہ حضراتِ صوفیا میں اشراقی حکماء (اشراقیت جدید neo-platonism کے صوفیاء) کا انداز پایا جاتا تھا۔ اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ سوفی سے صوفی ہو گیا۔ مرکس (merx) کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ لفظ یونانی (sogos) سے پیدا ہوا ہے۔ یعنی سوف سے صوف ہوا۔ پھر بعد میں صوفہ ہو گیا۔ علامہ ابو ریحان البیرونی نے اس بات کی تائید کی۔ ڈاکٹر نکلسن نے بھی تصوف کو صوف سے مشتق قرار دیا ہے۔ اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایران میں صوفی کو پشمینہ پوش بھی کہتے ہیں اور یہ محض صوف کی رعایت ہے۔ سو ہجری تک لباسِ صوف کو اسی بنا پر مذہبی عیسوی کا نشان سمجھ کر عرب میں سخت ناپسند کیا گیا۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ‘تصوف’ اور ‘صوفی’ اشراقیت جدید سے متاثر ہو کر وارد ہوئے، جس بنا پر پہلے پہل صوفی اور تصوف کو عالمِ اسلام میں سخت نا پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں قبول کر لیا گیا۔
اشراقیت جدید کے سوفی کی طرح اسلامی صوفی ترک الذات، کثرتِ عبادات وغیرہ کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابو محمد جعفر بن احمد اپنی کتاب میں مصارع العشاق میں رقم فرما ہیں:
‘یہ وہ علم ہے جس سے سعادتِ ابدی کے حصول کی خاطر تزکیہ نفوس، تصفیہِ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر (یعنی اس کی اصلاح) کے احوال جانے جاتے ہیں۔’
ظاہر ہے یہ چیزیں اہلِ علم کیلیے نئی نہیں۔ دنیا بھر کے روحانی مسالک میں مختلف طور طریقوں سے اسی چیز کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ لیکن اسلام میں تصوف کی تخلیق، یا پھر یوں کہہ لیں کے اسلام میں تصوف پہلے پہل تو غیر شعوری طور پر کسی خود رو پودے کی طرح پروان چڑھا لیکن فرقہ معتزلہ اور فرقہ اشاعرہ وغیرہ کے ظہور کے بعد اور علم الکلام کی ترقی کے سبب سے جو ایک دورِ عقلیت پیدا ہو چکا تھا، اور ایک بلند ذہنی ماحول تشکیل پا رہا تھا، اسی لیے قوم کی ‘اصلاح’ کیلیے اس وقت کے ارباب اختیار نے اس ضمن میں بڑا کام کیا۔ خلافتِ عباسیہ کے دور میں تصوف کے نام پر ہند کے عقیدہ ہمہ اوست کو ایک عالمگیر اخوت و مساوات کا پیغام دے کر پھیلایا گیا۔ کہ یہ واحد نظریہ تھا جس سے مذہبی اختلافات کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا اور عقلیت پرستی کا راستہ روکا جا سکتا تھا۔ مزید براں اس پر امام غزالی نے نمایاں کام سر انجم دیا کہ مسائل تصوف اور شریعتِ اسلامی میں مطابقت پیدا کرنے کی شاندار کوششیں کی۔ عہد بنو امیہ میں عام سیاسی انتشار اور طوائف الملوکی جو پھیلی ہوئی تھی، اور پھر ابتدائے دور عباسیہ میں مسلمانوں کے دماغوں میں دوبارہ معاملاتِ مذہبی میں جو عام تشکیکی میلانات (skeptical tendencies) کی فراوانی تھی۔ اس کی روک تھام کیلیے تصوف کو ایک روحانی اور وجدانی مسلک کی صورت میں پھیلانے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اسلام کا تصوف اسلام کا اپنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس تصوف کو اسلامی کرنے میں غزالی جیسے علماء کا ہاتھ ہے۔ جنہوں نے عقلیت پسندی کا راستہ مثالیت پسندی سے روکنا چاہا، اور اس میں کامیاب بھی رہے۔
آرکیالوجی کی تحقیقات کے مطابق تصوف سامی مذاہب کے خلاف ایک آریائی ردِ عمل ہے۔ اور اس کے (اسلامی تصوف) ابتدائی دور کے صوفی (اشراقیتِ جدید) سے متاثر تھے۔ اور نوفلاطونیت پر عمل پیرا تھے۔ جبکہ آریائی مذہب دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہیں یعنی 1، ایرانی اور 2، ہندی۔ زرتشترا کی وجدانیت جو بعد میں وحدتِ ثنویت میں تبدیل ہو چکی تھی وہی صوفیانہ نظریات میں در آئی۔
فلسفہ ویدانت تصوف کا اہم ماخذ ہیں۔
فلسفہ ویدانت ایک نظامِ فلسفہ ہے جو ویدوں پر قائم ہے۔ تصوف کا مشہور نظریہ، ابنِ عربی کا وحدت الوجود ویدوں سے مستعار ہے۔ جبکہ یہ ایرانی وحدتِ ثنویت سے بھی متاثر ہوا۔ زرتشت مت کی طرح فلسفہ ویدانت کو بھی تصوف کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق روحِ اعظم تحقیق و تفتیش سے کام لے اور اس ربط و تعلق کی بھی چھان بین کرے جو کائنات خدا اور روحِ انسانی کے درمیان واقع ہے۔ فلسفہ ویدانت کے مطابق کائنات ایک تدریجی اور ارتقاء کے ساتھ روحِ اعظم (برہم) سے ظہور میں آئی ہے اور یہ روح انسانی بہ اعتبار اصلیت برہم سے عینیت کا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ روح کو اس عینیت کا علم نہیں ہوتا اس لئے یہ فقدانِ علم ہی اس کے دنیاوی وجود کا احساس پیدا کرا دیتا ہے۔ اب روح اگر نجات ابدی یعنی تناسخ سے رستگاری چاہتی ہے تو اس کو یہ عدم واقفیت کا حائل پردہ اٹھا دینا چاہئیے اور یہ مقصد تعلیم ویدانت سے حاصل ہو سکتا ہے۔
ویدانت کے مطابق برہم ہی مادہ اور صنعت دونوں کے اعتبار سے کائنات کی علتِ اولیٰ ہے۔ یعنی وہی فعلِ حقیقی بھی ہے اور وہی فعل بھی۔ وہ واحد یکتا، قائم بالذات اور قادرِ مطلق ہے۔ اس کا وجود حقیقی ہے، وہی ہمہ عقل اور وہی ہمہ مسرت ہے۔ ان خصوصیات کو ست چت آنند سے تعبیر کیا جاتا ہے جو مرکب ہے ست یعنی وجود، چت یعنی عقل اور آنند یعنی مسرت سے۔ مخلوقات میں بھی تین صفات پائی جاتی ہیں جن کو ستو رجس تمس یعنی نور و علم، حرکت و سکون کہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مخلوقات ان صفات میں محصور ہیں لیکن برہم میں وہ اپنی مکمل اور خالص شکل میں موجود ہیں۔ اختتام مخلوقات کے وقت تمام کائنات اسی محو میں جانے والی ہے۔ انفرادی روحیں برہم سے اسی طرح ظہور پذیر ہوتی ہیں جس طرح آتشِ مشعل سے لاتعداد چنگاریاں، اس لیے روح نہ پیدا ہوتی ہے نہ فنا ہوتی وہ عین برہم یعنی عین ذات ہے۔
ایک معروف مورخ کے مطابق ہند کے فلسفہ ویدانت اور اسلامی تصوف کے بعض مسائل و اشغال میں مشابہت ملتی ہے لیکن پروفیسر براؤن کہتے ہیں کہ یہ مطابقت محض مبالغہ آمیزی اور سطحی ہے جو ہر گز بنیادی قرار نہیں دی جا سکتی۔ دو چیزوں میں ظاہری مماثلت کا وجود اس بات کی قطعی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی سبب مشترک سے ظہور میں آئی ہیں۔ ان کے مطابق تاریخی شہادت بھی اس نظریے کی تردید کرتی ہے۔ مزید کہتے ہیں کے عہدِ ساسانی خصوصاً چھٹی صدی عیسوی میں جبکہ نوشیرواں مسند آرائے حکومت تھا، ہندوستان اور ایران کے درمیان خیالات کی کچھ آمد و رفت ہوئی تھی،لیکن اس کے باوجود جب ہندوستانی افکار کا کوئی اثر ایران پر ثابت نہیں تو پھر عرب پر کوئی ایسا اثر کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے۔ لہذا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کے اسلامی تصوف ہندو ویدانت سے نہیں بلکہ نو افلاطونی فلسفہ سے متاثر ہوا۔ لیکن جدید تحقیقات ایسی تمام باتوں کی نفی کر چکی جیسا کہ ہم نے ہہلے کہا۔ اسلامی تصوف پر فلسفہ ویدانت کی گہری چھاپ ہے۔ قدیم سپتا سندھو تہذیب، گنگا جمنا تہذیب کی سومر و اکاد میں آمد و رفت کے، اور میل ملاپ کے ٹھوس آثار آرکیالوجی دریافت کر چکی۔ خلاصہ یہ کہ تصوف اور اس کے نظریات سراسر اسلامی عقائد کے الٹ ہیں۔ لیکن بعض صوفیاء نے پیر بہ طریقت اور پیر بہ شریعت کا فرق نکال کر ہر دو طرح کے تصوف کو اسلامائز کرنے کی کوشش کی۔ ہند کے مہاویر، بدھ، چین کے کنفیوزیس، مغربی المانی، مکاشفات وغیرہ سے لے کر رومی غزالی تک۔۔ صوفیانہ تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کے صوفی حقیقی دنیا سے زیادہ مثالی دنیا کو اہمیت دیتے ہیں۔
الہیات اور باطنی و روحانی تفکرات میں اس حد درجہ محو مستغرق رہتے ہیں کہ ان کو مادی طاقتوں کے مسائل میں دلچسپی لینے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ تصوف مذہب باطنی کا نام ہے۔ ان کے مطابق یہ جذبہ ‘تصوف’ انسان میں فطرتاً ودیعت ہوا ہے۔ یہ جب اپنی قوتوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو مادیت کی تمام بندشیں ٹوٹ جاتی ہیں، اور کائنات گویا ایک روح لطیف میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ باطنیت ایک قوی عملِ تنویم ہے جس کا معمول بے ارادہ محوِ خواب ہو کر مناظرِ مطلوبہ کی سیاحت کر آتا ہے۔ کلیدِ محبت خزائنِ روحانی کے ابواب کھول دیتی ہے اور ہم وہاں پہنچ آتے ہیں جہاں سے خود ہم کو ہماری خبر نہیں آتی۔ بہرحال ان ہی باتوں کے علاوہ اہلِ تصوف کے پاس اپنے نظریات اپنے عقائد کے برحق ہونے کی کوئی دلیل نہیں، کوئی ثبوت نہیں۔ مزے کی بات ہے کہ تصوف کو ان کے اپنے مذہب کی ہی الہامی کتب اور معتبر شخصیات ہرگز تسلیم نہیں کرتیں۔ یہ لاکھ اپنی کتابوں سے اپنے نظریات کو جلا بخشیں، لیکن اپنے ہی نظریات کی تفسیر در تفسیر تشریحات، محض لفظی مشت زنی ہے۔ یہی حال اسلامی و غیر اسلامی تصوف اور صوفیوں کا ہے۔
صوفیاء کسی غلامانہ نظریات کے پیرو نہیں ہوتے۔ وہ طبع زاد ہوتے ہیں۔ تصوف میں کئی قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ جن میں سب سے مقبول وحدت الوجود ہے۔ جو ویدانت کے ہمہ اوست کی نقل ہے۔ خود وحدت الوجود کے مختلف زاویہ نگاہ ہیں ہر مکتبہ فکر کے، لیکن مرکزی خیال یا بنیادی خیال ہر جگہ ایک سا ہے، اسے پیش کرنے کا طریقہ و انداز اپنا اپنا۔ لطف کی بات ہے کہ اس خالصتاً ہندی نظریہ کو ہر خطہ نے اپنایا۔ نیز سائنس سے بھی اس کی توجیہات کی جاتی ہیں جیسا کے اسٹار ڈسٹ تھیوری۔ کچھ ستم ظریف وحدت الوجود کو بگ بینگ سے بھی ثابت کرتے پائے جاتے ہیں کہ بنیاد تو ہر شے کی ایک ہی ہے یعنی ظہور یا صدور ایک ہی جگہ ایک ہی شے سے ہوا۔ آج کل کے تصوریت یا مثالیت کے جدید مکتبہ فکر کوانٹم فزکس کا سہارا لے کر اپنے صوفیانہ و روحانی نظریات کی توجیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام موجوداتِ کائنات چونکہ ایٹموں پر مشتمل ہے۔ ایٹم اپنی ہیئیت میں سب اٹامک پارٹیکلز کا مجموعہ ہے۔ اٹامک پارٹیکلز موج ہیں، لہر ہیں، توانائی ہیں۔ لہذا مادی جسم ایک جو روحانی وجود رکھتا ہے، یہ روحانی وجود توانائی ہے۔ اور کائناتی مادہ اپنی ماہئیت میں توانائی ہے۔ لہذا یہ سب ایک روحِ عظیم ہے۔ جس کی جلوہ نمائی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لہذا صوفیا کے اس تصور کو ہم سائنس کے حضور لیے چلتے ہیں۔۔ مادہ توانائی ہے مگر توانائی بھی وجود رکھتی ہے۔ لہٰذا اس کو ’کچھ نہیں‘ یا لا شے کہنا درست نہیں ہے۔ دنیا میں جو شے بھی پائی جاتی ہے وہ مادے یا توانائی (اِن میں سے جو نام آپ کو پسند ہے وہی استعمال کر لیں) سے بنی ہوئی ہے۔ پھر ہم کیونکر مادے کو جھٹلا سکتے ہیں؟ حقیقت مادے کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟
مادے کے بنیادی ذرات کے اندر اگر دیکھا جائے تو مادہ نہیں بلکہ توانائی ملتی ہے۔ اس حقیقت کو اہل تصوف اور عینیت پرست کے ہاں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مادہ ختم ہو گیا۔ توانائی اکثر صورتوں میں دکھائی بھی نہیں دیتی۔ اگر یہ نظر آنے والی روشنی کی شکل میں ہو تو بھی اسے چھونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس سے ہمارے ذہن میں توانائی کا یہ تصور بنتا ہے کہ کوئی ٹھوس قسم کی شے نہیں بلکہ انتہائی لطیف شے ہے۔
دوسری طرف مادے کا ہمارے ذہن میں تصور یہ ہے کہ کوئی ٹھوس شے جسے چھوا جا سکتا ہے اور جسے توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توانائی بڑی طاقت رکھتی ہے۔ تصور کریں زور آور آندھی کا یا ایسے سمندری طوفان کا جو مضبوط عمارتوں کو بھی ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ توانائی کی طاقت ہی ہے جو مادے کو ٹھوس پن یا strength دیتی ہے۔ ذیل میں میں نے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
میز پر رکھا ہوا گلاس میز میں سے گزر کیوں نہیں جاتا؟ یا میز گلاس میں سے کیوں نہیں گزرتی؟ ان سوالوں کا جواب ہم ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فزکس کے مطابق گلاس اور میز ایک دوسرے کے ساتھ contact میں نہیں ہیں۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ انتہائی پلین نظر آنے والی سطح کو بھی اگر مائیکروسکوپ سے دیکھا جائے تو وہ پلین نہیں ہوتی۔ چنانچہ دو انتہائی پلین سطحوں کا جو بظاہر area of contact ہوتا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ گیارہ فیصد حصہ microscopically کونٹیکٹ میں ہوتا ہے۔ اُن گیارہ فیصد کونٹیکٹ پوائنٹس پر کیا situation ہوتی ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ چیزوں کے ایٹموں یا مالیکیولز کے ارد گرد electron cloud ہوتا ہے۔ مگر یہ ایٹم یا مالیکیول کی boundary کا تعین نہیں کرتا۔ جب دو ایٹم یا مالیکیول ایک دوسرے کے نزدیک لائے جاتے ہیں تو یہ الیکٹران repulsion کی وجہ سے دائیں بائیں ہو جاتے ہیں۔ اب نیوکلیئس آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ چیزوں کو ایک دوسرے کے اتنا نزدیک لایا جائے کہ نیوکلیئس ایک دوسرے کو touch کرنے لگیں۔ electrostatic repulsion کے باعث وہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہی رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سوچنا کہ ایٹم کا نیوکلیئس ایک گیند نما چیز ہے جس کی ٹھوس boundary ہوتی ہے غلط ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں کہ مادہ ہی نہیں ہے۔ نیوکلیئس محض توانائی ہے جس کے اندر کچھ forces پائی جاتی ہیں۔ ان forces کے باعث چیزیں ایسے behave کرتی ہیں جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور چیزیں اور ان کا behavior یا ان کی خصوصیات کوئی فریب نہیں ہیں۔ اگر آپ پانی کو پانی کی بجائے ’توانائی کی وہ حالت جسے پانی کہا جاتا ہے‘ کہیں گے تو آپ کو زیادہ الفاظ استعمال کرنے پڑیں گے مگر اس سے آپ کی مراد وہی چیز ہے جسے پانی کہا جاتا ہے۔
مادے کی ہیئت کے بارے میں عرض ہے کہ جب توانائی condense ہوتی ہے تو ذرات یا سالموں کی شکل اختیار کرتی ہے۔ وہ شکل جو ماس رکھتی ہے۔ توانائی ’لا شے‘ نہیں ہے۔ کیونکہ سائنس کہتی ہے کہ یہ کبھی معدوم نہیں ہوتی اور نہ ہی عدم سے وجود میں آتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہ دنیا میں جتنے بھی مظاہر اور چیزوں کو ہم دیکھتے ہیں، وہ توانائی یا مادی اشیا اور ان کے درمیان ہونے والے interactions ہیں۔ نیز، کسی ایک ‘جدید عہد کے صوفی’ کا بیان پڑھا تھا۔ جن کو کوانٹم میکینکس پڑھنے کے بعد بد ہضمی ہو گئی تھی۔ کہ اگر کسی بھی شے کے الیکٹران ایک ساتھ طے کر کے نیوکلیس کے گرد گھومنا چھوڑ دیں، پھر وہ شے غائب ہو جائے گی۔ پس ثابت ہوا یہ عالم ایک فریب ہے۔ الیکٹران اگر ایک ساتھ طے کر کے گھومنا چھوڑ دیں تو کیا ہو گا۔ جناب ایسا ہونا ناممکن ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی بلند عمارت سے نیچے گرنے والا شخص گرنے کے دوران رُکنا یعنی فضا میں معلق ہونا چاہے تو یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ارادے کی بجائے gravity نامی قدرتی طاقت کے زیرِ اثر ہے۔ اس قسم کی بیہودہ باتوں سے تصوریت کے نمائندے، اہل خرد کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
کچھ صاحبان کے نزدیک حقیقت تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ 1- فہم و فکر۔ 2- عشق۔
اب یہ انسان کے ظرف و حوصلہ پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر اور کس سفر سے گزرتا ہے۔ مگر یہ بات جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ دور سے بیٹھ کر اور دوسرے مسافروں کے احوال سے اندازہ لگانا اور دوسروں کی دی گئی عینک سے دیکھنا کسی حوالے سے صحیح نہیں۔ اس سفر میں ایسی حقیتیں ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کیفیت پر کسی کا زور نہیں۔ یہ جس پر کھُل جائے اس کی ہے۔ آگہی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اس کی منزل کو پا لینے کا دعویٰ کرنا خود فریبی ہے۔ کیونکہ جان لینے کا عمل کوئی حد نہیں رکھتا۔ یعنی یہ کسی خاص طریقہ عبادت یا آئین پرستی کا نام نہیں۔ جو جس زاویہ نگاہ سے مشاہدہ کر رہا ہے، اسی اعتبار سے درست ہے۔
قصرِ تصوف کی بنیادیں عشق پر قائم ہیں۔ ہر عاشق کی طرح صوفی بھی ایک محبوب کا متلاشی رہتا ہے۔ لیکن چونکہ صوفی کا محبوب جسم و جسمانیت سے منزہ اور حدودِ زمان و مکان سے ماوراء ہے اس لئے اس کو عملی دنیا میں سکون و اطمینان نہیں ملتا، مادی عالم میں اس کے تکمیلِ ذوق کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔ مجبوراً وہ اس کے تلخ حقائق سے گریز کر کے خواب و خیال کے عالم میں اپنی تسکین کا سامان تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں حسن کا ایک دھندلا سا مرقع اٹھائے پھرتا ہے۔ مگر اس کو کوئی مرئی شکل رکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ ایک حسین و جمیل خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جس میں صرف شعر و موسیقی کا مترنم امتزاج، چرس شراب افیم وغیرہ اس کے جذبات و اضطراب کے ساتھ کھیل کھیل کر انہیں بہلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
تصوف اور عشق، صوفی کا ایک روحانی محبوب ہے جو اپنے شکار کو دنیاوی حقیقتوں سے بہکا ہنکا کر روز ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔ وہ تصور ہی تصور میں اپنے محبوب سے راز و نیاز کرتا ہے۔ اس پر اکثر بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اکثر صوفی اپنے روحانی محبوب کے عشق میں دنیاوی اور معاشرتی تقاضوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، جن کا کرنا ہر انسان کا فرض ہوتا ہے۔
‘روحانی محبوب’ کا نظریہ درحقیقت کوئی اصل، کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ دنیا میں مذاہب اور بغیر مذہب کے بھی تصوف کا نظریہ ہر دور میں ہر قوم میں پایا گیا ہے۔ صوفیائے کرام، جوگیوں اور راہبوں کی محبت اور عشق کا تعلق ہمیشہ روحانیت سے ہی رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اسی کے ذریعہ سے ‘خدا’ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ رابعہ بصری کا عشق بھی یہی عشق تھا، جسے جدید نیوروسائنس، علم النفسیات ایک دماغی بیماری قرار دیتے ہیں۔ عیسائیوں، ہندوؤں میں بھی ایسی ہستیاں گزری ہیں جن کا محبوب ایک خیالی دوست یعنی خدا تھا۔ عیسائیت میں تو اب بھی جب کوئی نن نقاب کرتی ہے تو خدا کو ہی اپنا محبوب تصور کرتی ہے، اور مقدس انگشتری کے مل جانے کے بعد خود کو مسیح کی دلہن تصور کرتی ہے۔
فرائیڈ کے مطابق تمام صوفیانہ تجربات دراصل جنسی دباؤ اور گھٹن کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ اس نے چیلنج کیا تھا کے کوئی بھی صوفی اپنے اندرونی باطنی تجربات سچائی کے ساتھ اس پر ظاہر کر دے تو وہ یہ بات ثابت کر دے گا کہ ان کی ‘صوفیانہ حقیقت’ کی بنیاد جنسی جذبات ہی ہیں۔ میری نظر میں آج تک کوئی ایسا صوفی نہیں گزرا جس نے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہو۔
بہرحال، تصوف میں انسان حقیقی دنیا سے فرار حاصل کر کے ایک ذہنی تعیش کی دنیا تلاش کرتا ہے۔ جو کوئی روحانی دنیا کی ‘حقیقتوں’ میں جذب ہونے کی خواہش رکھتا ہے، خارجی دنیا سے، حقیقی دنیا سے نفرت کرنے لگتا ہے یا پھر کم از کم اس سے اور اس کے معاملات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ اور روحانی دنیا اور اس کے معاملات کو حقیقی دنیا اور اس کے معاملات پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ اس کے مطابق تو اس کا مقصدِ حیات حقیقی دنیا کی مشکلات سے فرار نہیں بلکہ روحانی دنیا کی حقیقتوں تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔
اہلِ تصوف کے مسائل ان کے اپنے خیال میں مسائلِ کشف ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے مشاہدات ان علومِ باطنی کا نتیجہ ہوتے ہیں جو سالہائے سال کی عرق ریزیوں، شدید ریاضتوں اور شب زندہ دیواروں کے بعد سرحدِ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ عام لوگوں کی عقلیں ان ‘جلیل القدر مسائل’ اور دقیق روحانی نکات کو قبول کرنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتیں، لہذا تعلیماتِ تصوف میں رازداری کی لہر دوڑی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں خاصہ اہتمام روا رکھا جاتا ہے۔ مسائلِ روحانی کو عام فہم زبان میں بیان کرنے سے احتراز برتا جاتا ہے۔ لہذا اس سعی کو شاعری سے بہتر پناہ کہاں مل سکتی تھی؟ اس لئے اظہارِ خیال کے واسطے سے اس ذریعہ سے خوب فائدہ اٹھایا گیا۔ سطحیات کے پردہ میں صوفیا نے کیا کچھ نہ کہا؟ رومی کی ہی مثال لیجیے۔
رومی ترکی کے ایک بہت بڑے صوفی تھے۔ مولانا کے فرقے کے لوگ ‘جلالیہ’ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب ‘جلال’ تھا، اسی لئے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک میں، شام، مصر، قسطنطنیہ میں اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو ‘مولویہ’ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پہ عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتے کی بجائے ایک چنٹ دار پائجامہ ہوتا ہے۔
اس فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں، ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک جگہ جم کر مستقل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نَے بھی بجاتے ہیں۔
مولانا اپنے دور کے اکابر علماء میں سے ایک تھے اور فقہ و مذہب کے بہت بڑت عالم تھے۔ شمس تبریزی سے ایک اتفاقی ملاقات کے بعد مولانا نے ان سے گہرا اثر لیا اور طریقت و عشق کی راہوں کو اپنا لیا اور ایک عظیم تخلیق ‘مثنوی مولوی معنوی’ تصنیف کی۔ مثنوی مولوی معنوی کے سرورق پر لکھا ہے:
ہست قرآن در زبان پہلوی
ترجمہ: یہ فارسی زبان میں قرآن ہے۔
اور مولانا کے قرآن میں ہے کیا؟
عشق و عاشقی، ہجر و فراق، رقص و موسیقی، وحدت الوجود و نظریہ حلول، عجیب و غریب کرامات، حکایات و واقعات۔ یہی سب کچھ اس مشہور تین جلدوں اور ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل مثنوی مولوی معنوی میں موجود ہے۔ رسول اللہ کا قرآن یوں شروع ہوتا ہے: الحمداللہ رب العالمین
تمام تعریفیں اللہ ہی کیلیے ہیں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
مولانا رومی کا فارسی قرآن یوں شروع ہوتا ہے:
بشنوازے چوں حکایت می کند وز جدا می کھا شکایت می کند
ترجمہ: بانسری سے سن کیا بیان کرتی ہے اور جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔
اسی کے بعد مولانا مزید اپنے قرآن میں فرماتے ہیں۔ ترجمہ:
عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے۔ عشق کا جوش ہے جو شراب میں آ گیا ہے۔
ابو داؤد اور مسند احمد کی ایک معروف حدیث کے مطابق جب رسول اللہ نے دورانِ سفر کسی چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو رسول اللہ نے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور راستہ بدل لیا تھا۔ کہاں تو رسول اللہ کو بانسری سے سخت نفرت تھی اور کہاں رومی کا قرآن شروع ہی بانسری کے تعریف سے ہوتا ہے۔
استعارات و تمثیلات جو شاعری کی زینت ہیں، صوفیانہ حال کی ترجمانی میں معاون ہیں۔ تمام صوفیانہ ادبیات میں رمزیت پسندی کی بہتات ہے۔ اس ضمن میں ہر صوفی، ولی، بزرگ کہلائے جانے والے کسی بھی معتبر صوفی کا کلام اٹھا کر دیکھ لیجیے، کہیں سے بھی شروع کر لیجیے، اس پردے میں وہ کچھ نظر آئے گا کہ الامان۔
اسلامی تصوف کے ماخذ۔
برِ اعظم ایشیا کی سرزمین وہ جگہ ہے جہاں سے دنیا کے قریب قریب تمام بڑے مذاہب جاری ہوئے۔ اور روحانیت کے کئی بیش قیمت آفتاب اس سرزمین سے طلوع ہوئے۔ مصر و عرب، ایران و چین و ہندوستان اپنی باطنی اور روحانی تعلیمات کے اعتبار سے تمام ممالک میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن مغرب بھی کسی طور کسی سے پیچھے نہیں۔ جہاں مشرق میں تاؤ، کنفیوشیس، مہاویر، گوتم، اور فلسفہ ویدانت دینے والے اخلاقی مفکرین آتے رہے وہیں مغرب کی سرزمین بھی باطنی مسالک اور روحانی میلانات و مشاغل سے پُر ہے۔ چاہے قدیم اہلِ یونان کی ناستیت gnosticiam ہو یا میڈم گائیس اور فینی لون کا quietism ہو یا مولیناس کا pietism، المانیوں کا مسئلہ کشف doctrine of illuminati ہو یا سوئیڈن برگ کا مکاشفات vision ہو، سب میں باطنی ذوق کارفرما رہا ہے۔
حکیم فیثا غورث نے اپنے تلامذہ کیلیے پانچ سال تک خاموش رہنے کی تعلیم لازمی قرار دے دی تھی۔ جس کے بعد وہ ان کو اپنے روحانی مسلک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا تھا۔ اسی طرح ایک گروہ اشراقیت جدید neo-platonism کا تھا۔ اشراقیت جدید ایک روحانی مسلک ہے۔ جس کا بانیِ اوّل افلاطون یونانی تھا۔ لیکن افلاطون کا یہ فلسفہ اس کے شاگرد اسپیوسیس speusippus اور زینا کریٹز xenocratez کے بعد ختم ہو چکا تھا۔ اشراقیت جدید وہ دبستانِ علم ہے جو بہت بعد میں فلاطنبوس نے قائم کیا۔ یہ شخص اسکندریہ مصر کا باشندہ تھا اور اس کا زمانہِ حیات 202ء سے 270ء تک ہے۔ اس دبستانِ علم میں افلاطون اور فیثاغورث کے نظریات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اسکندریہ کی جغرافیائی حیثیت یعنی اس کے ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقعہ ہونے کی وجہ سے اس نظامِ فکر میں اہلِ مشرق کا نظریہِ ظہور بھی شامل ہو گیا۔
یونان میں فلسفہ کی روایت کا آغاز سات سو قبل از مسیح میں ہوا۔ اس روایت کا اولین بانی یونان میں طالیس تھا جس کے متعلق مورخین خیال کرتے ہیں کہ اس نے حصولِ علم کی خاطر مصر، بابل اور ایران کا سفر کیا۔ ایران اور بابل کی سرزمین ہند کی علمی روایتوں سے کشید کرتی رہی۔ لہذا یونانی فلسفہ اپنی پیدائش میں اہلِ مشرق کی علمی روایات کا مرہونِ منت ہے۔
فیثا غورث نسخ ارواح کا قائل تھا اور تاریخ شاہد ہے کے نسخ ارواح کا نظریہ ہندوستانی سرزمین کے تمام شاستروں، ہندومت، بدھمت اور جین مت کی تعلیمات کا بنیادی عنصر تھا۔ علاوہ ازیں تاریخ میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ فیثا غورث نے بھی حصولِ علم کی خاطر مشرق کا سفر کیا۔ لہذا یونانی فلسفہ فیثا غورث کی شکل میں مشرقی روایات سے اثرات قبول کرتا ہے۔ اب چونکہ افلاطون کے نظریہ امثال اور مابعد فلاطینوس کے نظریہ صدور میں فیثاغورثی عناصر شامل تھے، اور یہی نظریات نوفلاطونیت کی صورت میں تصوف میں متشکل ہوئے۔ لہذا اپنی ہیئیت میں یہ خالص مشرقی فلسفہ کے اثرات کے حامل ہیں۔ خود فیثا غورث، عارفیوس کا پیرو تھا جو ایک مجذوب الحال صوفی اور گویا تھا۔ جس نے عارفی مت کی بنیاد رکھی جو اپنی ساخت میں بدھ مت سے حد درجہ مماثلت رکھتا ہے۔ عارفیوس کے مطابق جسم روح کا زندان ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی جنم چکر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس لئے انسانی زندگی کا مقصد اس زندان سے روح کی نجات میں منحصر ہے۔ عارفیوس کے مسلک کے پیرو ڈاوئینیوسس کی پوجا کیلیے شراب پی کر دیوانہ وار رقص کرتے۔ ہیروڈوٹس کے مطابق یونانیوں نے بقائے روح اور نسخ ارواح کے عقائد مصریوں سے لئے۔ فیثا غورث کا کہنا تھا کے جس طرح بیج درخت بنتا ہے اور درخت سے پھر دوبارہ بیج پیدا ہو کر دوبارہ درخت بن جاتا ہے، اسی طرح انسانی روح قالب بدلتی ہے۔ فیثاغورث نے یونانی فلسفہ کو ریاضیات اور روحانیت کی راہ دکھائی۔ ہندوستانی اعداد و شمار اور جیومیٹری میں خصوصی شغف رکھتے تھے۔ جو فیثاغورث کے فلسفہ میں اس حد تک نمایاں ہوا کے بعد میں فلسفہ کا جزو لاینفک بن گیا۔ افلاطون سے لے کر ڈیکارٹ، اسپوئنوزا اور لائیبنز تک کا فلسفہ ریاضیاتی اثر لئے ہوئے ہے۔ اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ علم الاعداد، ہندسہ اور الجبرا جو سائنس اور فلسفہ کا بنیادی پتھر ہے، اہلِ مشرق کی خلّاق ذہنئیت کا مرہونِ منت ہے۔
آرفیوس کے نظریات کا فیثاغورث کے نظریات پر گہرا اثر ہے۔ ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ یونان کے بیشتر نظریات، ہند کے گہرے فلسفیانہ نظریات سے کشید شدہ ہیں۔ کیونکہ آرفیوسس کے علاوہ اس دور کے دیگر اہم فلاسفہ نے بھی مختلف ممالک کی سیاحت کی، ان کے فلسفہ حیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ اور انہیں ان فلسفہ کے اصل ماخذ اور عالموں سے سمجھا۔ اور اپنے انہی اسفار اور مطالعہ اور براہ راست و بلا واسطہ حاصل شدہ علم کی بنیاد پر نئے نظریات کی بنیاد رکھی۔
فیثاغورث transmigration of soul پر یقین رکھتا تھا جو کہ خالصتاً اہلِ ہند کا فلسفہ تھا۔ لطف کی بات ہے کہ اس ضمن میں مثلاً transmigiration of soul اور اسی قسم کے دیگر نظریات کے رد میں ہندوستان میں نو صدی قبل از مسیح میں ہی بیشتر فلسفیوں نے کام شروع کر دیا تھا۔ اور عقلی و منطقی بنیادوں پر اس کا انکار کر کے عقلیت کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ ان اولین فلاسفہ میں سے چارواکاس اور برہاس پتی کے نام نمایاں ہیں۔ جبکہ یونان میں ان کے دور کے کئی عرصہ بعد جا کر مثالیت اور پھر اس کے بھی بعد مادیت اور عقلیت پسندی کی بنیاد پڑی۔ لیکن فیثاغورث کا یہ کارنامہ قابلِ تحسین ہے کے اس نے فلسفہ میں ریاضی کو شامل کیا، اور یوں تقریباً استقرائی منطق کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ وہ ہندسہ اور ان کے آپسی داخلی تعلق سے اس کائنات کی توجیہ کرنے کا نظریہ رکھتا تھا۔ اور کائنات اور اس کے ظواہر کے داخلی تعلق پر ایمان رکھتا تھا۔ اشراقیت جدید میں اسٹوئکس، سقراط کے خیالات سے بھی استفادہ کیا گیا۔ پھر بعد ازاں اس میں ایرینس کی الہیات مدغم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں موضوعی بنیادوں پر اس عالمِ رنگ و بو پر بحث کی گئی ہے۔ اور کائنات کی غرض و غایت پر سوال اٹھاتے وقت اشیاء کے داخلی تعلق کی وجدانی حقیقت پر زور دیا گیا ہے۔
نوفلاطونیت یونانی عقلیت اور مشرقی وجدانیت کا امتزاج ہے۔ فلوطینوس اور اس کے شاگرد فرفریوس نے اسے باقاعدہ منظم انداز میں مرّتب کیا۔ توریت کی رو سے کائنات اور خدا کے درمیان لوگوس بمعنی کلمہ کا واسطہ ہے۔ قرآن کی رو سے خدا نے کلمہ ‘کن’ کہہ کر کائنات کو عدم سے وجود بخشا۔ منطقی رو سے کوئی شے عدم محض سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ لہذا فلاسفہ نے خدا اور کائنات کے درمیان ایک واسطہ پیدا کرنے کی کوشش کی تا کہ مذہب اور فلسفہ کے درمیان باہمی تطبیق پیدا کی جا سکے۔ نوفلاطونیت اسی سعی کا حامل ہے۔ یہ اولین کوشش ہے جو اس مقصد کیلیے کی گئی۔ بعد میں علم الکلام (فلسفہ اور مذہب کے درمیان تطیق پیدا کرنے کا علم) اور مسلم فلسفہ اس سے حد درجہ متاثر ہوا۔
اشراقیتِ جدید کے سقم بعد میں مسلم فلاسفہ الکندی، الفارابی اور ابنِ سینا نے دور کیے۔ اور اپنے اپنے وقت کا سب سے زیادہ مسلمہ اور مقبول فلسفہ بنا دیا۔ ابن العربی نے اس فلسفہ کو اسلامی تصوف میں ڈھالا۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہوا۔ اور سب سے زیادہ ذہنِ انسانی کو متاثر کرتا رہا۔ اور آج بھی تصوف کی شکل میں پائندہ ہے۔
افلاطون نے وجود اور عالمِ ظواہر پر بحث کرتے ہوئے سوال اٹھایا کے حقیقتِ کہنہ کیا ہے؟ یا پھر ہونے سے کیا مراد ہے۔ اور جب سوال اول کہنہ حقیقت کا آتا ہے تو افلاطون اسے سقراط کی زبان میں پیش کرتا ہے۔ دراصل افلاطون، کانٹ اور بریڈلے وہ فلسفی ہیں جنہوں نے خاص طور پر مجاز اور حقیقت کے فرق کو سمجھنے اور سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ تصوریت کے دونوں مکاتبِ فکر، موضوعی عینیت اور معروضی عینیت میں تغیر میں غیر تغیر کو فرض کر لیا گیا ہے۔ اور مادہ میں روح کو ڈھونڈنے کی سعی کی گئی۔ اقدار کو ابدی بتایا گیا۔ موجودات کو مظاہر کہہ کر حقیقتِ ابدی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور حقیقت کو جوہریت سے آزاد قرار دیا گیا ہے۔ افلاطون کی فکر کا سادہ ترین بیان یہ ہوگا کہ جو نظر آتا ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا پرتو ہے۔ بذریعہ حواس ہمیں یا بدلتی دنیا سے سابقہ پڑتا ہے یا عقائد سے، جنہیں علم نہیں کہا جا سکتا۔ علم اپنے حقیقی معنوں میں ابدی غیر متغیر اور کُلی کا عرفان ہے۔ اور کیونکہ موجوداتِ عالم وہ اشیاء اور جسام جنہیں ہم عام طور سے حواس و محسوسات کے واسطے سے جانتے ہیں، اپنی شکل و ہیئیت بدلتے رہتے ہیں۔ لہذا نہ انہیں غیر مبتدل کہا جا سکتا ہے۔ نہ ان سے ہماری واقفیت صحیح معنوں میں علم کہلانے کی مستحق ہے۔ عقائد کی دنیا سے آگے فہم کی دنیا آتی ہے جہاں تعلق تو کم و بیش مستقل حقائق سے ہوتا ہے لیکن یہ دنیا بھی محسوسات سے آلودہ ہے۔
افلاطون ریاضیاتی حقائق کو اس دنیا کا رکن قرار دیتا ہے۔ یہ حقائق یقیناً حواس کی متغیر دنیا سے مختلف ہیں۔ لیکن ان کو جاننے کیلیے بھی اکثر محسوسات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس سے آگے کی منزل ابدی، غیر متغیر اور سرمدی حقائق کی دنیا ہے۔ یہ ابدی حقائق جنہیں اعیان ideas یا ابدی صورت forms کہا گیا ہے، بذریعہ عقل جانے جاتے ہیں۔ ان حقائق میں اعلیٰ ترین مقام خیر کو حاصل ہے۔ اور اس کے بعد حسن و صداقت کا مقام آتا ہے۔ کائنات کے موجودات، انہی ابدی اور بے بدل اعیان کا پرتو ہیں۔ یہی اعیان حقیقی ہیں۔ باقی جو کچھ ہے اس حقیقت سے تعلق رکھتے ہوئے کائنات میں موجود ہے اور جگہ پاتا ہے، یہی مجاز ہے۔
مختصراً اشراقیت جدید کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو حقیقت مطلقہ یعنی کائنات کا علم و عرفان حاصل کر کے اس سے واصل ہونا چاہیے۔ اس میں ایک ایسی استعداد موجود ہے جس کی مدد سے وہ اپنے تجرباتی علوم کی حد سے گزر کر حقیقت واحدہ کا وجدانی علم حاصل کر سکتا ہے اور اپنی شخصیت کو فنا کر سکتا ہے۔ اس فلسفہ کے معلمین کے نزدیک خدا گویا ایک صوفیانہ مثلیث mystical trinity کی حیثیت رکھتا ہے۔
روحِ اعظم divine nature تین حیثیتوں کی مالک ہے۔ اس کی اصل و حقیقت خالص وحدت یا نورِ ازلی ہے۔ یہ وحدت خود متعین نہیں بلکہ تمام اشیاء کی اصل ہے۔ خیر کُل غیر متناہی ہے۔ اور اگرچہ ادراک سے بالاتر ہے، لیکن انسان میں ایک قوت ایسی ہے جو اسے اس کے وجود کا یقین دلاتی ہے۔ اس وحدت سے پہلے عقلِ کامل کا ظہور ہوا جو اس کی مظہر ہے۔ عقلِ کامل سے روحِ کائنات وجود میں آئی۔ جس کی تخلیقی حرکات سے روح انسانی و حیوانی کا ظہور ہوا۔ اور اس سے بالآخر مادہ ظہور پزیر ہوا۔ اسی طرح وحدت، عقلِ کامل اور روحِ کائنات کے ذریعے اشراقیتِ جدید میں ایک ظہورِ دائمی کا نظریہ پیش کیا گیا۔
رومنز فلسفی، عیسائی ماہرِ الہیات اور مسلمان اس نہ سے نہ صرف متاثر ہوئے، بلکہ اس کو اپنایا بھی، اور اپنی الہامی تعلیمات میں تصورِ خدا بھی ایسا ہی تراشنے لگے، اور اس کی توجیہات بھی اس سے کرنے لگے۔ جنید بغدادی نے رسالہ قصد الی اللہ، معاذ رازی نے کتاب المریدین، شیخ ابو النصر سراج نے کتاب اللمع لکھیں، جس میں اشراقیت جدید کی گہری چھاپ نمایاں ہے۔ پھر عبدالکریم بن ہوازن قشیری نے رسالہ قشیری لکھا جس میں بہت سی صوفیانہ اصطلاحات متعارف کرائی گئیں جو الہیات کے سرمایہ افتخار عالم ایریس، پلوٹینس کے نظریات سے مستعار شدہ تھیں۔ جن پر عینیت کا رنگ نمایاں تھا۔ پھر ابنِ عربی نے اس نظریہ کو جلا بخشی۔ ابنِ عربی وہ پہلا شخص تھا جس نے وحدت الوجود کو عقلی و منطقی بنیادوں پر استوار کرنے کی سعی کی۔ جبکہ غزالی جنہیں حجتِ اسلام بھی کہا جاتا ہے، نے مسائل تصوف اور شریعت اسلامی میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے مسلک صوفیا کو نگاہِ شریعت میں ایک مستند و معتبر مقام مل سکا۔ غزالی کی احیاء العلوم، کیمیائے سعادت اور مشکوۃ الانوار پر نوفلاطونیت کے افکار و نظریات کا خاصہ گہرا اثر ہے۔
آغاز میں یوں تو تصوف کے مختلف سلسلے قائم ہوئے جو بڑھتے بڑھتے سینکڑوں اور اب ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ابتدائی سلاسل میں سے چند کے نام احباب کی دلچسپی کے پیشِ نظر درج ذیل ہیں۔ محاسبیہ، جس کے بانی عبداللہ حارث محاسبی ہیں۔ جنہوں نے حال و مقام کے اصطلاحی فرق کو واضح کیا۔ قیصریہ، جس کے بانی شیخ قیصری ہیں، یہ سلسلہ ملامتی ہے۔ جس کے پیروکار بظاہر ملامت و رسوائی اختیار کرتے ہیں لیکن گوتم کی َزبان میں ان کا مقصد بھی باطن کی صفائی کی جد وجہد ہی ہے۔ مقصد نروان حاصل کرنا۔ طیغوریہ، اس کے بانی ابو یزید طیغوری بسطامی ہیں۔ یہ صوفی ہونے سے پہلے مسلم دنیا کے اکابر علماء میں شمار کیے جاتے تھے، امام العلماء کہلاتے تھے۔ جنیدیہ کے بانی جنید بغدادی تھے۔ انہیں بھی سیّد الطائفہ، طاؤس العلماء وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ان کا خاص شغل مراقبہ اور طریقہ کی بنیاد صحو و عشق تھا۔ شروع شروع میں اس (تصوف) کی تعلیم و تلقین اشاروں کنائیوں میں ہوا کرتی تھی، یہ خلوت میں نشونما پاتا رہا، لیکن رفتہ رفتہ یہ عام مجمعوں میں بے نقاب ہونے لگا۔ سینوں میں چھپے راز زبان زد عام ہونے لگے۔ چوتھی صدی میں حسین بن منصور کو اسی بنا پر سولی پر چڑھا دیا گیا۔
پھر چھٹی صدی ہجری میں محی الدین عربی آئے۔ جنہوں نے وحدت الوجود کو فلسفیانہ اور استدلالی رنگ میں پیش کیا۔ انہیں شیخ اکبر، تبحر علمی جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
وحدت الوجود کے مطابق وجود صرف وحدت کا ہے۔ یعنی حقیقی وجود کے اعتبار سے محض وحدت ہی وحدت ہے۔ بالفاظ دیگر وحدت یعنی خدا کے سوا کسی شے کا وجود ہی نہیں۔ لیکن کائنات اور اس کے ظواہر، موجوداتِ کائنات ہر وقت انسان کے مشاہدے اور زیرِ استعمال رہتی ہیں، وہ بدیہی طور پر تو موجود نظر آتی ہیں۔ لیکن وجود کو وحدت محض میں منحصر کر دینے کے بعد ان سب کے وجود سے انکار کرنا لازم ہے۔ جو کے ظاہر ہے ایک تعجب خیز اور ناقابلِ قبول و قطعی طور پر خلافِ مشاہدہ اور غیر سائنسی بات ہے۔ وجودِ کائنات کی تاویل کیا کی حائے گی پھر؟ اگر کہ کائنات وجود رکھتی ہے لیکن اس کا وجود حقیقی نہیں۔ وہ خدا کے وجود کا صرف پرتو ہے۔ خدا کی صفات میں اگرچہ تعدد ہے لیکن تمام صفات عین ذات ہیں۔ کائنات تجلی صفات کا نام ہے۔ اس لیے بھی اپنے ظہور میں کائنات عین ذات ہے۔ وجودِ کائنات کچھ نہیں محض ظہور ہے۔ اس لیے کائنات اور ذات میں علاقہ عینیت ہے۔ اور ذات چونکہ وحدتِ مطلقہ ہے اس لیے وجود وحدت ہی وحدت کا ہے۔ یہی عقیدہ وحدت الوجود ہے جو ہمہ اوست کی تشریح ہے۔ ابنِ عربی کے مطابق کائنات ایک قسم کے نظریہ ظہور emanation سے وجود میں آئی جس کی تفصیل جیسا کہ ابنِ عربی اور ان کے متبعین بیان کرتے ہیں۔
پھر کئی عرصہ بعد شیخ احمد سرہندی نے، جنہیں مجدد الف ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، وحدت الوجود کو باطل قرار دیا اور اس کے مقابل نظریہ توحید شہودی پیش کیا اور اس کی تعلیم دی۔ انہوں نے کشف و استدلال کی مدد سے وحدت الوجود کو غلط اور وحدت الشہود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مجدد الف ثانی کے بقول وحدت الوجود شریعت کے خلاف ہے کیونکہ وہ تعلیمِ وحی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جبکہ وحدت الشہود ‘عین الیقین’ ہے۔ مگر پھر یہ بھی کہتے ہیں کے کائنات کی معیت و عینیت ہستیِ مطلق کے ساتھ جو قائم بالذات ہے، ہر گز حدود اثبات میں نہیں آ سکتی۔ صاف لفظوں میں مجدد الف ثانی غزالی کی تجدید کر رہے ہیں کہ عقلِ انسانی اس قابل نہیں کہ وجودِ باری تعالیٰ تک پہنچ سکے۔ لہذا عقل اس تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں کیونکہ وہ عقل سے ماوراء ہے لہذا صرف اس بنا پر اس پر ایمان رکھتے ہوئے اسے تسلیم کر لیا جائے۔ لطف تو یہ ہے کہ اس کی کوئی عقلی دلیل بھی پیش نہیں کرتے۔
ان دنوں یوں تو تمام دنیا میں اسلامی تصوف کے کئی فرقہ، مسلک پائے جاتے ہیں۔ ہند و پاک میں بھی۔ لیکن ہندوستان میں پائے جانے والے چار بڑے مسالک کا ذکر درج ذیل ہے۔ چشتیہ، جس کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی تھے۔ جو داتا گنج بخش کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔ جنہیں سلطان الہند اور غریب نواز کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ صوفیائے ہندوستان میں غریب نواز ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ برِ صغیر میں سب سے پہلے اسلامی تصوف کے سلسلہ کا آغاز خواجہ معین الدین سے ہی ہوا۔ اس سلسلے میں راگ اور سماع کو خصوصی مقبولیت حاصل ہے۔ پھر سہروردیہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ جس کے بانی شیخ بہاؤ الدین زکریا تھے جو ملتان میں پیدا ہوئے۔ تیسرا بڑا مسلک سلسلہ قادریہ کے نام سے مشہور ہے جس کا آغاز سلطان سکندر لودھی حضرت سید محمد غوث سے ہوا۔ جن کا شجرہ نسب نو واسطوں سے شیخ عبدالقادر گیلانی بانی سلسلہ قادریہ سے ملتا ہے۔ لودھیوں کے دورِ حکومت کی ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ اس زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوئے جنہوں نے مختلف مذاہب کے عقائد کو ملا جلا کر ایسے فرقوں کا آغاز کیا جن میں ہر مذہب کی تعلیمات کا رنگ موجود تھا۔ جیسا کہ کبیر۔ جن کی تحریک بھگتی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ جو تاریخ تصوف میں نہایت اہمیت کے حامل تصور کیے جاتے ہیں۔ ان مختلف تحاریک کی بدولت ہندوستانی خیالات و مشاغل، یوگ کے طریقے، حبس دم وغیرہ اہلِ تصوف کے حلقوں میں راہ پا گئے۔ رفتہ رفتہ ان کو اچھی خاصی مقبولیت حاصل ہو گئی۔ ان حالات کی بدولت ہندوستان میں مذہبی اختلافی فضا میں رنگِ اتحاد بڑھنا شروع ہوا۔
پھر نقشبندیہ کا نمبر آتا ہے جس کی ابتدا عہدِ اکبری میں حضرت خواجہ باقی رحمت باللہ سے ہوئی۔ لیکن اس سلسلے کو فروغ دینے والے شیخ مجدد الف ثانی تھے۔۔ شاہ ولی اللہ کا تعلق بھی اسی مسلک سے تھا۔ جنہوں نے تصوف پر القول الجمیل، تفہیمات الہیہ، القاس العارفین جیسی کتب لکھیں۔ ایک رسالہ ‘فیصلہ وحدت الوجود و الشہود’ لکھا جس میں شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود کی تاویل کر کے اسے شیخ مجدد کے نظریہ وحدت الشہود کے مطابق ثابت کیا۔ اسی زمانے میں دارا شکوہ نے اسلامی تصوف اور ہندوستانی یوگ یکجا کر کے دونوں طریقوں میں مشابہت کو ثابت کیا۔ ان کی کتاب مجمع البحرین اسی موضوع پر ہے۔ اس وقت کے علماء نے دارا شکوہ کی مخالفت میں بڑا ہنگامہ برپا کیا۔
بہرحال، اکثر و بیشتر صوفیا کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام ہندوستان میں بزورِ بازو نہیں پھیلا بلکہ بطورِ استدلال پھیلا جس کا سہرا ہندوستان کے صوفیاء کے سر باندھا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں اسلامی تعلیمات محبت و امن سے پھیلائیں۔ پھر نہ جانے محمد بن قاسم، غزنوی وغیرہ وغیرہ جیسے جنگجو شاید مٹھائیاں، پھولوں کے گلدستے بانٹنے سر زمینِ ہند پہ وارد ہوئے تھے۔ جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کے اہلِ عرب و ہند کے تعلقات فاتحینِ عرب کی آمد سے بہت پہلے قائم ہو چکے تھے، گو کہ ان تعلقات کی ابتدا متعین طور پر نہیں بتائی جا سکتی۔ بہرحال، صوفیاء کرام کا ہند میں تبلیغ کا طریقہ ہند کے بھکشوؤں سے ملتا جلتا ہے۔ جنہوں نے اپنی سادہ تعلیمات بدھ مبلغین کے ذریعے عام فہم انداز میں پیش کیں، اسے ہند کے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جس بنا پر یہ اپنے وقتوں کا انقلابی فلسفہ ثابت ہوا۔ اور لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے گئے۔ بدھمت بھی صرف رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا۔ بدھمت میں دنیا دار لوگوں کو پاسکی کہا جاتا ہے اور نوے فیصد بدھ پاسکی ہی تھے۔ عہدِ قدیم میں جو بدھ کی اعلیٰ تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔ جب کہ صوفی ٹائپ لوگوں کو تیاگی یا سنگا کہا جاتا تھا۔ جس میں وہ اسلامی درویشوں کی طرح دنیا تیاگ دیتے تھے۔ انہی تیاگیوں کی بدولت بدھمت کا فلسفہ برصغیر کے دور دراز علاقوں تک پہنچا۔ جسے اسلامی صوفیاؤں نے ہندوستان کے علاقوں تک پہنچایا۔ لہذا یہ طریقہ کار بھی دنیا بھر کے صوفیا کا خاصہ ہے محض اسلامی صوفیا کا طرہ امتیاز نہیں۔ ویسے بھی آج مسلمان جن صوفیا کے اس کارنامے پہ پھولے نہیں سماتے اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ مسلمان صوفیاء تھے، لیکن اگر وہ انہی صوفیاء سے متلعق جانیں، ان کی سوانح، اقوال و اشعار کا مطالعہ کریں تو ان کے دماغوں کے فیوز بھک سے اڑ جائیں۔ محض ان صوفیاء کے فرقہ کا ہی پتہ لگ جائے تو ایک اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں فوراً سے پہلے ان کے فرقہ کی بنیاد پر انہیں کافر قرر دے دیں۔ مثلاً شمس تبریزی جیسے بزرگ کی مثال ہی لے لیجیے۔ اسماعیلی تھے۔ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو وہابی، سنی اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں، یہ شاید بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔
صوفیاء کا علم ان کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ‘تجربات’ عالمِ خیال سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس سے باقی سب نا آشنا رہتے ہیں۔ صوفیاء اپنا یہ ‘علم’ صرف اسی پہ آشکار کیا کرتے ہیں جو ان کے خیال میں اس کو سنبھال سکے۔ سائنسدان محقق حضرات کی طرح ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اس ‘علم’ سے مستفید نہیں ہونے دیا جاتا۔
صوفیاء کے پاس کوئی منطقی اکویشن نہیں ہوتی جس سے وہ اپنے علم کو برحق اور اپنے دعووں کو سچا ثابت کر سکیں۔ اہلِ مذاہب کی معتبر شخصیات کی طرح اہلِ تصوف کا یہ دعویٰ بھی ہے کے ہم نے سب کچھ جان لیا کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اس کائنات اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کے اپنا یہ علم صوفیاء عام نہیں کرتے، شاید سائنس سے وابستہ حضرات کی روزی روٹی کے چلے جانے کی وجہ سے۔ کہ اگر انہوں نے اپنا علم خلقِ خدا کیلیے عام کر دیا تو اہلِ علم حضرات کی دال روٹی کیسے چلے گی؟۔
مذہب انسانی سوچ کو مفلوج کرتا ہے۔ تصوف بھی ان سے جدا نہیں۔ مذہب سوچ کو مفلوج کرتا ہے تو تصوف بزبانِ دیگراں who cares سکھاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مذہب کے طریقہء کار کا باغی ہو کر بھی تصوف نے مذہب کو ہی اپنی ڈھال بھی بنا رکھا ہے۔ زیادہ تر صوفی مذہبی قوانین کو نہیں مانتے، مذہب سے آزادی کے قائل ہوتے ہیں۔ اگر مذاہب چھوڑنے کا جمہوری حق دیا جائے تو میرے خیال سے پہلا مشرک پہلا کافر صوفی ہوگا۔ ویسے بھی صوفی اور کفر میں فرق صرف چولے کا ہے۔ تصوف، مذہب کی آڑ میں بیٹھا منافقت کی تعلیم دے رہا ہے۔ لیکن ہمیں ایسی منافقت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔
اولیائے کرام کی کرامات و معجزات کے نام پر عجیب و غریب قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ پھر ضعیف الاعتقادی کا اصرار ہوتا ہے کہ انہیں من و عن تسلیم کیا جائے۔ کامل یقین رکھا جائے۔ صوفی بزرگوں کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو خیال ہوتا ہے جیسے کوئی الف لیلوی داستان پڑھ رہے ہوں یا زمانہ شجاعت میں لکھی گئی کسی داستان کا مطالعہ کر رہے ہوں۔ مثلاً جنید بغدادی کا دجلہ پر تشریف لے جانا اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر مثل یوں چلنا کہ گویا دجلہ کا بہتا پانی نہ ہوا، ٹھوس زمین ہوئی۔ بی بی مریم کے حجرے میں بے موسمی پھلوں کا واسطے ان کی غذا کے آ جانا۔ حضرت سلمان کے تخت کا اڑنا پھرنا، سورج کا سوا نیزے پہ اتر آنا، کعبہ کا پاؤں کی حرکت کے ساتھ حرکت کرنا، کعبہ کا اپنی جگہ چھوڑ کر بزرگ ہستی کے استقبال کیلیے اپنی جگہ چھوڑ کر نکل جانا، کعبہ کا بزرگ کی کٹیا کا طواف کرنا، بجلی کا لوٹے میں قید کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتوں کو برحق سمجھا جائے، کہ یہ کراماتِ اولیاء ہیں جو اپنے تئیں کسی خدا کے محبوب، برگزیدہ پہنچے ہوئے بندے ہیں۔
گو کہ مجھے تصوف کی ایک خوبی کا کھلے دل سے اعتراف بھی ہے۔ کہ یہ بلاشبہ امن، محبت کا پیغام دیتا ہے۔ مذہبی رواداری کا درس دیتا ہے۔ بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت کی تلقین کرتا ہے۔ بظاہر یہ اس کی بہت اچھی خوبی ہے۔ جس پر اہل تصوف کیلیے ہر سال نوبیل کے امن انعام میں حصہ مختص رکھنا چاہیے۔ کیا یہ پیغام شدت پسندی کا متبادل تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ لگتا تو یہی ہے کہ پیغامِ صوفیاء انتہا پسندی کے مقابلے میں ایک متوازن پیغام کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مذہبی منافرتوں کے تضاد میں ایک امن کا پیغام لے کر منظر پر ابھرتا ہے۔ لیکن کیا یہ عقلی طور پر قابلِ قبول ہے؟ کیا ہم عوام الناس کو اس قسم کی افیون کھلا کر ان کی عقل کو مفلوج نہیں کر رہے؟ کیا یہ ایسے ہی نہیں کہ مذہبی منافرتوں کو ختم کرنے کیلیے عقلی طور پر باشعور بنا دینے کے بجائے، انہیں انسانیت کی تعلیم دیتے ہوئے مذہبی و فرقہ وارانہ اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے، ایک دوسرے کے عقائد کے احترام کی تعلیم دینے کے بجائے، سب اچھا ہے سب ایک ہے کا لایعنی درس دیا جائے جسے معاشرے کا ضعیف الاعتقاد طبقہ تو قبول کر سکتا ہے مگر باشعور طبقہ نہیں۔ یہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے، شتر مرغ کی طرح سر مٹی میں دبا لینے کے مترادف ہے۔ یہ عقلیت پسندی کی راہ کی رکاوٹ ہے۔ تصوف، روحانیت کے ادارے عقل و فکر کو پنپنے نہیں دیتے۔ ہم نے ہر قسم کے عقائد سے ماوراء جا کر اس خطے کی نشاۃ ثانیہ کیلیے فکری و عملی طور پر جد و جہد کرنی ہے۔ ہم نے بے سروپا قصہ کہانیوں لایعنی معجزات و کرامات کی ماورائی سائنس سے دامن چھڑانا ہے۔ ہم نے اپنا تعلق عقلیت پرستی سے جوڑنا ہے مثالیت پرستی سے نہیں۔
ﺁﺝ کے ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﭘﺮﮐﮭﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﻮ ﻣﺪﻧﻈﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺏ “ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ” ﮐﻮ ﺍﺯ ﺳﺮ ﻧﻮ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﺮﯾﮟ- ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻓﻮﻕ ﺍﻟﻔﻄﺮﺕ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻭ ﻗﺼﺎﺋﺺ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭘﮩﻠﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎں ﮐﺮﯾﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﻭ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﻭ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﺋﯿﮟ- ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﺟﻮ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﻮﮌ ﻟﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﻣﻨﺤﺮﻑ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ- ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﻭ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻋﮩﺪ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻘﺎﺿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﮐﺎ ﺁﻭﺍﺯﮦ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮ ﻋﻤﺮﺍﻧﯽ ﻭ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺻﻼﺡ ﻭ ﻓﻼﺡ ﮐﺎ ﻏﻠﻐﻠﮧ ﮨﮯ، ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﯽ ﻣﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﺮﻑ ﻏﻠﻂ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﭩﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﻋﮩﺪ ﺣﺎﺿﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻭ ﻣﺒﺎﻟﻐﮧ ﺁﺭﺍﺋﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ، ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﺸﮑﯿﮏ ﮐﺎ ﻋﮩﺪ ﮨﮯ، ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﻦ ﻭ ﻋﻦ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ، ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﻟﺪ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﻮﮒ ﺁﻣﻨﺎ ﻭ ﺻﺪﻗﻨﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﺁﺝ ﺻﻮﺭتِ حال ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﮯ، ﺁﺝ ﮐﯽ ﭘﻮﺩ ﻗﺪﯾﻢ ﺍﺛﺒﺎﺗﯽ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺮﮔﺸﺘﮧ، ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﻓﮑﺮ کو ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﺮﮐﮭﮯ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﭼﻨﺪ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﻣﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﺭ ﺩﺍﺭﺩ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺼﺎﺋﺺ ﺳﮯ “ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﮐﻤﺎﻻﺕ ﻭ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ” ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﺍﻧﺸﻤﻨﺪﺍﻧﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺒﻮﻝ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، گو کہ یہ ایک برا خیال بھی نہیں۔
تاریخ کو مسخ کر کے نئے پیکٹ میں اور فی زمانہ کے حساب سے اسے بدلنے کی روش قطعی نئی نہیں ہے، لیکن کم از کم مسلم معاشرے کو اس چیز کی صورتحال کا ادراک تو ہونے لگا ہے۔ جس بنا پر ایسی کوششیں ممکن ہو رہی ہیں، جن کے متعلق خیال ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔
اس سب کے بعد آخرش کہنا چاہتا ہوں کہ: روحانیت کا تعلق کسی مذہب کسی فلسفہ سے نہیں ہوتا، یہ انسان کے اپنے اندر یقین کی صورت ہوتی ہے۔ صوفی ولی سادھو گیانی سنیاسی بھکشو جوگی برہمچاری لامائی جیسے لوگ دنیا میں ہر جگہ ہر خطے ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ روحانیت کسی کی جاگیر نہیں اور نا ہی کسی مصلح یا پیغمبر کی میراث ہے۔ درحقیقت مجذوب وہی ہے جو حق کی راہ میں نکلتا ہے اور سچ جاننے کیلیے غور و فکر اور تحقیق کرتا ہے۔ حق کی راہ میں نکلنے والا بڑی ذہنی اذیت سے گزرتا ہے اس کے اندر بڑی توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے عقائد سے لڑتا ہے۔ مجذوب کی خامی یا خوبی ہی یہی ہوتی ہے وہ موجودہ یا گزشتہ کو رد کرتا چلا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے علم و تمدن کی ترقی میں انہی مجذوبوں کا ہاتھ ہے۔ انسان کی تاریخ کو سیاست، قتل و غارت کے ریکارڈ کے بجائے ان مجذوبوں کے پسِ منظر میں دیکھا جائے۔ جنہوں نے اپنی سوچ، نظرئیے، ایجادات اور دریافت کے ذریعے نوعِ انسانی کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جنہوں نے صداقت کا چہرہ دکھایا۔ مجذوب وہی ہوتا ہے جس پر حق سچ کے سفر میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے، جو جو راز و اسرار اس پر کھلتے ہیں وہ پوری دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ اور یہ مجذوب سائنسدان، محقق، فنکار حضرات ہی تو ہیں جو اپنے علم سے تحقیق سے دنیا کو روشن کیے جا رہے ہیں۔ نوعِ انسانی پہ درِ صداقت وا کیے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے دنیا کو ‘روشن’ کر دیا، جنہوں نے دنیا کو ‘پر’ لگا دیے، جنہوں نے دنیا بھر کے فاصلوں کو سمیٹ کر تمام انسانوں کو مربوط کر دیا۔ پس اگر کوئی خدا ہے بھی تو معراج کے اصل حقدار بھی یہی مجذوب ہیں جنہوں نے عقلیت پسندی سے رشتہ جوڑے رکھا، مثالیت پسندی کی راہیں اپنا کر خود کو اور دنیا کو بے وقوف نہیں بنایا۔
تصوف میں عجیب و غریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مثلاً اکثر صوفیا نظریہ حلول کے قائل ہیں، کے کائنات میں رواں دواں ایک سرمدی ہستی ان میں حلول کر گئی ہے، چنانچہ اب کائنات امور وہ سرمدی ہستی انہی میں بیٹھ کر سر انجام دے رہی ہے۔ یعنی وہ خود کو خدا بتاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی شے ان میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ خدا ان کے جسم میں تشریف فرما ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی گدھے کا تصور کرے، دن رات گدھے کے مقدس خیال میں ڈوبا رہے، تو کیا وہ گدھا ہو گیا؟ یقیناً نہیں۔ پھر ان تصوف کے نمائندوں کا کہنا ہے کے انہیں کُل کائناتی امور کا بدرجہ اتم علم ہے۔ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا علم ان کے اندر سما گیا ہے، ہستیِ مطلق نے انہیں کل کائنات کے ہر قسم کے علم کی کنجی تھما دی ہے، اور وہ علم کیا ہے؟ لاتعداد عجیب و غریب واقعات، بے سروپا باتیں، علامات، فرشتوں اور خدا سے ہمکلامی، ملاقات، ولیوں سے شبِ وصل، پیغمبروں کی غائبانہ محافل میں دو زانو ہو کر ‘تعلیم’ حاصل کرنا، غرض جنہیں عقل بے ہنگم باتیں قرار دے دے۔ اس پر طرہ یہ کے اس ‘علم’ کو خواص تک محدود رکھا جائے۔ عام نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اب ہم دیکھیں گے کے ‘تصوف’ ہے کیا؟
استخراجی و استقرائی منطق کا قاعدہ ہے جب کبھی کوئی بھی نظریہ یا فلسفہ وغیرہ پیش کیا جاتا ہے، اس کی حقانیت کی دلیل بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے جو اس کے پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہذا جو کوئی بھی اس خیال کا انکار کر دے، اس سے انکار کی دلیل طلب کرنا، بچکانہ سی بلکہ احمقانہ سی بات ہے۔ لہذا تصوف کے حق سچ ہونے کی دلیل بھی تصوف کے تمام مکتبہ فکر سے طلب کی جائے گی۔ پھر اس دلیل کو عقلی و منطقی بنیادوں پر پرکھنے کے بعد ہی قبول یا رد کرنے کا جواز پیش کیا جائے گا۔ لیکن اس سے بھی پہلے یہ دیکھتے ہیں کے تصوف ہے کیا اور آیا کہاں سے۔
جس طرح تصوف کی تعریف ناقابلِ یقین ہے، اسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی اختلافِ خیال کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ڈیوڈ وہ بیریٹ کہتے ہیں:
‘تصوف باطنی اسلام ہے لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ ہے۔ صوفیوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں میں احترام اور خوف کا ایک غیر راحت بخش جذبہ پیدا کیا۔ صوفی کے لفظ کا مطلب عربی زبان میں ‘صوف نامی کھردرا کپڑا پہننے والا’ بنتا ہے۔۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی مرتض اور باطن پرست بھی کھردرا اونی چغہ پہنا کرتے تھے۔ عربی کے ‘صفا’ یعنی پاکیزگی کے ساتھ بھی لفظ صوفی کا تعلق ہوگا۔ عبرانی میں ‘عین صوف’ کا مطلب ‘بے اختتام’ ہے جو ناقابلِ معلوم خدا کیلیے اقبالی اصطلاح تھی۔ قرآن کی صوفی تفسیر باطنی اور تشبیہاتی ہے۔ صوفیا نے تمام چیزوں سے برتر خدا کے شخصی و انفرادی وصال کی خواہش کے ذریعے خود کو رسمی اسلام کی درجہ بندیوں کے کنٹرول سے ماوراء کر لیا۔
کئی صدیوں تک تادیب کے بعد تصوف کو بارہویں اور تیرہویں صدی میں قبولیت اور حتیٰ کے احترام ملا۔ باہر والوں کیلیے تصوف کی بڑی وجہِ شہرت ‘گھومنے والے درویش’ ہیں جو رقص کرتے کرتے حالتِ کیف میں چلے جاتے ہیں۔۔۔ غزالی نے ایک موقع پر تصوف کی وجہ تسمیہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس لفظ کے اشتقاق کے متعلق تین آراء ہیں۔ بعض کے مطابق صحابہ میں سے جو لوگ اہلِ صفہ کہلاتے تھے، یہ ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا ماخذ صفا ہے۔ بعض کے نزدیک صف، لیکن قاعدہ اشتقاق کی رو سے یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔ شبلی کہتے ہیں تصوف صوف سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی پشمینہ کے ہیں۔ لیکن پشمینی پوش ہونا اس فرقے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ علی ہجویری کی رائے ان سب سے مختلف ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق لباس صوف، اہلِ تصوف کا امتیازی نشان تھا۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اصحاب رسول کا ذکر کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب لباس صوف کو محبوب رکھتے تھے۔ شیخ سہروردی بھی اسی خیال کی تاکید کرتے ہوئے حسن بصری کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ستر اہلِ صفا کو دیکھا تھا (گویا وہ صوفی تھے) جن کی پوشاک صوف تھی۔ پھر کشف المحجوب میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہمیشہ صالحین اور زہاد اور متقین اور عباد کو صوف کا ہی لباس مرغوب اور مطبوع رہا ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ گر عہدِ نبوی کے عزلت نشیں اور زہد پسند بزرگوں کو اولین صوفیاء میں تسلیم کر لیا جائے تو تصوف آسانی کے ساتھ صوف سے مشتق قرار دیا جا سکتا ہے۔ مشترقانِ یورپ نے بھی زیادہ تر اسی نظریہ کی حمایت کی ہے۔ لیکن تصوف کا لفظ اصل میں ‘سین’ سے تھا۔ جس کا مادہ سوف تھا۔ جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں۔ دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔ اور چونکہ حضراتِ صوفیا میں اشراقی حکماء (اشراقیت جدید neo-platonism کے صوفیاء) کا انداز پایا جاتا تھا۔ اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ سوفی سے صوفی ہو گیا۔ مرکس (merx) کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ لفظ یونانی (sogos) سے پیدا ہوا ہے۔ یعنی سوف سے صوف ہوا۔ پھر بعد میں صوفہ ہو گیا۔ علامہ ابو ریحان البیرونی نے اس بات کی تائید کی۔ ڈاکٹر نکلسن نے بھی تصوف کو صوف سے مشتق قرار دیا ہے۔ اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایران میں صوفی کو پشمینہ پوش بھی کہتے ہیں اور یہ محض صوف کی رعایت ہے۔ سو ہجری تک لباسِ صوف کو اسی بنا پر مذہبی عیسوی کا نشان سمجھ کر عرب میں سخت ناپسند کیا گیا۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ‘تصوف’ اور ‘صوفی’ اشراقیت جدید سے متاثر ہو کر وارد ہوئے، جس بنا پر پہلے پہل صوفی اور تصوف کو عالمِ اسلام میں سخت نا پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں قبول کر لیا گیا۔
اشراقیت جدید کے سوفی کی طرح اسلامی صوفی ترک الذات، کثرتِ عبادات وغیرہ کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابو محمد جعفر بن احمد اپنی کتاب میں مصارع العشاق میں رقم فرما ہیں:
‘یہ وہ علم ہے جس سے سعادتِ ابدی کے حصول کی خاطر تزکیہ نفوس، تصفیہِ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر (یعنی اس کی اصلاح) کے احوال جانے جاتے ہیں۔’
ظاہر ہے یہ چیزیں اہلِ علم کیلیے نئی نہیں۔ دنیا بھر کے روحانی مسالک میں مختلف طور طریقوں سے اسی چیز کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ لیکن اسلام میں تصوف کی تخلیق، یا پھر یوں کہہ لیں کے اسلام میں تصوف پہلے پہل تو غیر شعوری طور پر کسی خود رو پودے کی طرح پروان چڑھا لیکن فرقہ معتزلہ اور فرقہ اشاعرہ وغیرہ کے ظہور کے بعد اور علم الکلام کی ترقی کے سبب سے جو ایک دورِ عقلیت پیدا ہو چکا تھا، اور ایک بلند ذہنی ماحول تشکیل پا رہا تھا، اسی لیے قوم کی ‘اصلاح’ کیلیے اس وقت کے ارباب اختیار نے اس ضمن میں بڑا کام کیا۔ خلافتِ عباسیہ کے دور میں تصوف کے نام پر ہند کے عقیدہ ہمہ اوست کو ایک عالمگیر اخوت و مساوات کا پیغام دے کر پھیلایا گیا۔ کہ یہ واحد نظریہ تھا جس سے مذہبی اختلافات کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا اور عقلیت پرستی کا راستہ روکا جا سکتا تھا۔ مزید براں اس پر امام غزالی نے نمایاں کام سر انجم دیا کہ مسائل تصوف اور شریعتِ اسلامی میں مطابقت پیدا کرنے کی شاندار کوششیں کی۔ عہد بنو امیہ میں عام سیاسی انتشار اور طوائف الملوکی جو پھیلی ہوئی تھی، اور پھر ابتدائے دور عباسیہ میں مسلمانوں کے دماغوں میں دوبارہ معاملاتِ مذہبی میں جو عام تشکیکی میلانات (skeptical tendencies) کی فراوانی تھی۔ اس کی روک تھام کیلیے تصوف کو ایک روحانی اور وجدانی مسلک کی صورت میں پھیلانے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اسلام کا تصوف اسلام کا اپنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس تصوف کو اسلامی کرنے میں غزالی جیسے علماء کا ہاتھ ہے۔ جنہوں نے عقلیت پسندی کا راستہ مثالیت پسندی سے روکنا چاہا، اور اس میں کامیاب بھی رہے۔
آرکیالوجی کی تحقیقات کے مطابق تصوف سامی مذاہب کے خلاف ایک آریائی ردِ عمل ہے۔ اور اس کے (اسلامی تصوف) ابتدائی دور کے صوفی (اشراقیتِ جدید) سے متاثر تھے۔ اور نوفلاطونیت پر عمل پیرا تھے۔ جبکہ آریائی مذہب دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہیں یعنی 1، ایرانی اور 2، ہندی۔ زرتشترا کی وجدانیت جو بعد میں وحدتِ ثنویت میں تبدیل ہو چکی تھی وہی صوفیانہ نظریات میں در آئی۔
فلسفہ ویدانت تصوف کا اہم ماخذ ہیں۔
فلسفہ ویدانت ایک نظامِ فلسفہ ہے جو ویدوں پر قائم ہے۔ تصوف کا مشہور نظریہ، ابنِ عربی کا وحدت الوجود ویدوں سے مستعار ہے۔ جبکہ یہ ایرانی وحدتِ ثنویت سے بھی متاثر ہوا۔ زرتشت مت کی طرح فلسفہ ویدانت کو بھی تصوف کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق روحِ اعظم تحقیق و تفتیش سے کام لے اور اس ربط و تعلق کی بھی چھان بین کرے جو کائنات خدا اور روحِ انسانی کے درمیان واقع ہے۔ فلسفہ ویدانت کے مطابق کائنات ایک تدریجی اور ارتقاء کے ساتھ روحِ اعظم (برہم) سے ظہور میں آئی ہے اور یہ روح انسانی بہ اعتبار اصلیت برہم سے عینیت کا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ روح کو اس عینیت کا علم نہیں ہوتا اس لئے یہ فقدانِ علم ہی اس کے دنیاوی وجود کا احساس پیدا کرا دیتا ہے۔ اب روح اگر نجات ابدی یعنی تناسخ سے رستگاری چاہتی ہے تو اس کو یہ عدم واقفیت کا حائل پردہ اٹھا دینا چاہئیے اور یہ مقصد تعلیم ویدانت سے حاصل ہو سکتا ہے۔
ویدانت کے مطابق برہم ہی مادہ اور صنعت دونوں کے اعتبار سے کائنات کی علتِ اولیٰ ہے۔ یعنی وہی فعلِ حقیقی بھی ہے اور وہی فعل بھی۔ وہ واحد یکتا، قائم بالذات اور قادرِ مطلق ہے۔ اس کا وجود حقیقی ہے، وہی ہمہ عقل اور وہی ہمہ مسرت ہے۔ ان خصوصیات کو ست چت آنند سے تعبیر کیا جاتا ہے جو مرکب ہے ست یعنی وجود، چت یعنی عقل اور آنند یعنی مسرت سے۔ مخلوقات میں بھی تین صفات پائی جاتی ہیں جن کو ستو رجس تمس یعنی نور و علم، حرکت و سکون کہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مخلوقات ان صفات میں محصور ہیں لیکن برہم میں وہ اپنی مکمل اور خالص شکل میں موجود ہیں۔ اختتام مخلوقات کے وقت تمام کائنات اسی محو میں جانے والی ہے۔ انفرادی روحیں برہم سے اسی طرح ظہور پذیر ہوتی ہیں جس طرح آتشِ مشعل سے لاتعداد چنگاریاں، اس لیے روح نہ پیدا ہوتی ہے نہ فنا ہوتی وہ عین برہم یعنی عین ذات ہے۔
ایک معروف مورخ کے مطابق ہند کے فلسفہ ویدانت اور اسلامی تصوف کے بعض مسائل و اشغال میں مشابہت ملتی ہے لیکن پروفیسر براؤن کہتے ہیں کہ یہ مطابقت محض مبالغہ آمیزی اور سطحی ہے جو ہر گز بنیادی قرار نہیں دی جا سکتی۔ دو چیزوں میں ظاہری مماثلت کا وجود اس بات کی قطعی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی سبب مشترک سے ظہور میں آئی ہیں۔ ان کے مطابق تاریخی شہادت بھی اس نظریے کی تردید کرتی ہے۔ مزید کہتے ہیں کے عہدِ ساسانی خصوصاً چھٹی صدی عیسوی میں جبکہ نوشیرواں مسند آرائے حکومت تھا، ہندوستان اور ایران کے درمیان خیالات کی کچھ آمد و رفت ہوئی تھی،لیکن اس کے باوجود جب ہندوستانی افکار کا کوئی اثر ایران پر ثابت نہیں تو پھر عرب پر کوئی ایسا اثر کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے۔ لہذا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کے اسلامی تصوف ہندو ویدانت سے نہیں بلکہ نو افلاطونی فلسفہ سے متاثر ہوا۔ لیکن جدید تحقیقات ایسی تمام باتوں کی نفی کر چکی جیسا کہ ہم نے ہہلے کہا۔ اسلامی تصوف پر فلسفہ ویدانت کی گہری چھاپ ہے۔ قدیم سپتا سندھو تہذیب، گنگا جمنا تہذیب کی سومر و اکاد میں آمد و رفت کے، اور میل ملاپ کے ٹھوس آثار آرکیالوجی دریافت کر چکی۔ خلاصہ یہ کہ تصوف اور اس کے نظریات سراسر اسلامی عقائد کے الٹ ہیں۔ لیکن بعض صوفیاء نے پیر بہ طریقت اور پیر بہ شریعت کا فرق نکال کر ہر دو طرح کے تصوف کو اسلامائز کرنے کی کوشش کی۔ ہند کے مہاویر، بدھ، چین کے کنفیوزیس، مغربی المانی، مکاشفات وغیرہ سے لے کر رومی غزالی تک۔۔ صوفیانہ تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کے صوفی حقیقی دنیا سے زیادہ مثالی دنیا کو اہمیت دیتے ہیں۔
الہیات اور باطنی و روحانی تفکرات میں اس حد درجہ محو مستغرق رہتے ہیں کہ ان کو مادی طاقتوں کے مسائل میں دلچسپی لینے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ تصوف مذہب باطنی کا نام ہے۔ ان کے مطابق یہ جذبہ ‘تصوف’ انسان میں فطرتاً ودیعت ہوا ہے۔ یہ جب اپنی قوتوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو مادیت کی تمام بندشیں ٹوٹ جاتی ہیں، اور کائنات گویا ایک روح لطیف میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ باطنیت ایک قوی عملِ تنویم ہے جس کا معمول بے ارادہ محوِ خواب ہو کر مناظرِ مطلوبہ کی سیاحت کر آتا ہے۔ کلیدِ محبت خزائنِ روحانی کے ابواب کھول دیتی ہے اور ہم وہاں پہنچ آتے ہیں جہاں سے خود ہم کو ہماری خبر نہیں آتی۔ بہرحال ان ہی باتوں کے علاوہ اہلِ تصوف کے پاس اپنے نظریات اپنے عقائد کے برحق ہونے کی کوئی دلیل نہیں، کوئی ثبوت نہیں۔ مزے کی بات ہے کہ تصوف کو ان کے اپنے مذہب کی ہی الہامی کتب اور معتبر شخصیات ہرگز تسلیم نہیں کرتیں۔ یہ لاکھ اپنی کتابوں سے اپنے نظریات کو جلا بخشیں، لیکن اپنے ہی نظریات کی تفسیر در تفسیر تشریحات، محض لفظی مشت زنی ہے۔ یہی حال اسلامی و غیر اسلامی تصوف اور صوفیوں کا ہے۔
صوفیاء کسی غلامانہ نظریات کے پیرو نہیں ہوتے۔ وہ طبع زاد ہوتے ہیں۔ تصوف میں کئی قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ جن میں سب سے مقبول وحدت الوجود ہے۔ جو ویدانت کے ہمہ اوست کی نقل ہے۔ خود وحدت الوجود کے مختلف زاویہ نگاہ ہیں ہر مکتبہ فکر کے، لیکن مرکزی خیال یا بنیادی خیال ہر جگہ ایک سا ہے، اسے پیش کرنے کا طریقہ و انداز اپنا اپنا۔ لطف کی بات ہے کہ اس خالصتاً ہندی نظریہ کو ہر خطہ نے اپنایا۔ نیز سائنس سے بھی اس کی توجیہات کی جاتی ہیں جیسا کے اسٹار ڈسٹ تھیوری۔ کچھ ستم ظریف وحدت الوجود کو بگ بینگ سے بھی ثابت کرتے پائے جاتے ہیں کہ بنیاد تو ہر شے کی ایک ہی ہے یعنی ظہور یا صدور ایک ہی جگہ ایک ہی شے سے ہوا۔ آج کل کے تصوریت یا مثالیت کے جدید مکتبہ فکر کوانٹم فزکس کا سہارا لے کر اپنے صوفیانہ و روحانی نظریات کی توجیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام موجوداتِ کائنات چونکہ ایٹموں پر مشتمل ہے۔ ایٹم اپنی ہیئیت میں سب اٹامک پارٹیکلز کا مجموعہ ہے۔ اٹامک پارٹیکلز موج ہیں، لہر ہیں، توانائی ہیں۔ لہذا مادی جسم ایک جو روحانی وجود رکھتا ہے، یہ روحانی وجود توانائی ہے۔ اور کائناتی مادہ اپنی ماہئیت میں توانائی ہے۔ لہذا یہ سب ایک روحِ عظیم ہے۔ جس کی جلوہ نمائی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لہذا صوفیا کے اس تصور کو ہم سائنس کے حضور لیے چلتے ہیں۔۔ مادہ توانائی ہے مگر توانائی بھی وجود رکھتی ہے۔ لہٰذا اس کو ’کچھ نہیں‘ یا لا شے کہنا درست نہیں ہے۔ دنیا میں جو شے بھی پائی جاتی ہے وہ مادے یا توانائی (اِن میں سے جو نام آپ کو پسند ہے وہی استعمال کر لیں) سے بنی ہوئی ہے۔ پھر ہم کیونکر مادے کو جھٹلا سکتے ہیں؟ حقیقت مادے کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟
مادے کے بنیادی ذرات کے اندر اگر دیکھا جائے تو مادہ نہیں بلکہ توانائی ملتی ہے۔ اس حقیقت کو اہل تصوف اور عینیت پرست کے ہاں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مادہ ختم ہو گیا۔ توانائی اکثر صورتوں میں دکھائی بھی نہیں دیتی۔ اگر یہ نظر آنے والی روشنی کی شکل میں ہو تو بھی اسے چھونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس سے ہمارے ذہن میں توانائی کا یہ تصور بنتا ہے کہ کوئی ٹھوس قسم کی شے نہیں بلکہ انتہائی لطیف شے ہے۔
دوسری طرف مادے کا ہمارے ذہن میں تصور یہ ہے کہ کوئی ٹھوس شے جسے چھوا جا سکتا ہے اور جسے توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توانائی بڑی طاقت رکھتی ہے۔ تصور کریں زور آور آندھی کا یا ایسے سمندری طوفان کا جو مضبوط عمارتوں کو بھی ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ توانائی کی طاقت ہی ہے جو مادے کو ٹھوس پن یا strength دیتی ہے۔ ذیل میں میں نے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
میز پر رکھا ہوا گلاس میز میں سے گزر کیوں نہیں جاتا؟ یا میز گلاس میں سے کیوں نہیں گزرتی؟ ان سوالوں کا جواب ہم ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فزکس کے مطابق گلاس اور میز ایک دوسرے کے ساتھ contact میں نہیں ہیں۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ انتہائی پلین نظر آنے والی سطح کو بھی اگر مائیکروسکوپ سے دیکھا جائے تو وہ پلین نہیں ہوتی۔ چنانچہ دو انتہائی پلین سطحوں کا جو بظاہر area of contact ہوتا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ گیارہ فیصد حصہ microscopically کونٹیکٹ میں ہوتا ہے۔ اُن گیارہ فیصد کونٹیکٹ پوائنٹس پر کیا situation ہوتی ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ چیزوں کے ایٹموں یا مالیکیولز کے ارد گرد electron cloud ہوتا ہے۔ مگر یہ ایٹم یا مالیکیول کی boundary کا تعین نہیں کرتا۔ جب دو ایٹم یا مالیکیول ایک دوسرے کے نزدیک لائے جاتے ہیں تو یہ الیکٹران repulsion کی وجہ سے دائیں بائیں ہو جاتے ہیں۔ اب نیوکلیئس آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ چیزوں کو ایک دوسرے کے اتنا نزدیک لایا جائے کہ نیوکلیئس ایک دوسرے کو touch کرنے لگیں۔ electrostatic repulsion کے باعث وہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہی رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سوچنا کہ ایٹم کا نیوکلیئس ایک گیند نما چیز ہے جس کی ٹھوس boundary ہوتی ہے غلط ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں کہ مادہ ہی نہیں ہے۔ نیوکلیئس محض توانائی ہے جس کے اندر کچھ forces پائی جاتی ہیں۔ ان forces کے باعث چیزیں ایسے behave کرتی ہیں جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور چیزیں اور ان کا behavior یا ان کی خصوصیات کوئی فریب نہیں ہیں۔ اگر آپ پانی کو پانی کی بجائے ’توانائی کی وہ حالت جسے پانی کہا جاتا ہے‘ کہیں گے تو آپ کو زیادہ الفاظ استعمال کرنے پڑیں گے مگر اس سے آپ کی مراد وہی چیز ہے جسے پانی کہا جاتا ہے۔
مادے کی ہیئت کے بارے میں عرض ہے کہ جب توانائی condense ہوتی ہے تو ذرات یا سالموں کی شکل اختیار کرتی ہے۔ وہ شکل جو ماس رکھتی ہے۔ توانائی ’لا شے‘ نہیں ہے۔ کیونکہ سائنس کہتی ہے کہ یہ کبھی معدوم نہیں ہوتی اور نہ ہی عدم سے وجود میں آتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہ دنیا میں جتنے بھی مظاہر اور چیزوں کو ہم دیکھتے ہیں، وہ توانائی یا مادی اشیا اور ان کے درمیان ہونے والے interactions ہیں۔ نیز، کسی ایک ‘جدید عہد کے صوفی’ کا بیان پڑھا تھا۔ جن کو کوانٹم میکینکس پڑھنے کے بعد بد ہضمی ہو گئی تھی۔ کہ اگر کسی بھی شے کے الیکٹران ایک ساتھ طے کر کے نیوکلیس کے گرد گھومنا چھوڑ دیں، پھر وہ شے غائب ہو جائے گی۔ پس ثابت ہوا یہ عالم ایک فریب ہے۔ الیکٹران اگر ایک ساتھ طے کر کے گھومنا چھوڑ دیں تو کیا ہو گا۔ جناب ایسا ہونا ناممکن ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی بلند عمارت سے نیچے گرنے والا شخص گرنے کے دوران رُکنا یعنی فضا میں معلق ہونا چاہے تو یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ارادے کی بجائے gravity نامی قدرتی طاقت کے زیرِ اثر ہے۔ اس قسم کی بیہودہ باتوں سے تصوریت کے نمائندے، اہل خرد کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
کچھ صاحبان کے نزدیک حقیقت تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ 1- فہم و فکر۔ 2- عشق۔
اب یہ انسان کے ظرف و حوصلہ پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر اور کس سفر سے گزرتا ہے۔ مگر یہ بات جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ دور سے بیٹھ کر اور دوسرے مسافروں کے احوال سے اندازہ لگانا اور دوسروں کی دی گئی عینک سے دیکھنا کسی حوالے سے صحیح نہیں۔ اس سفر میں ایسی حقیتیں ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کیفیت پر کسی کا زور نہیں۔ یہ جس پر کھُل جائے اس کی ہے۔ آگہی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اس کی منزل کو پا لینے کا دعویٰ کرنا خود فریبی ہے۔ کیونکہ جان لینے کا عمل کوئی حد نہیں رکھتا۔ یعنی یہ کسی خاص طریقہ عبادت یا آئین پرستی کا نام نہیں۔ جو جس زاویہ نگاہ سے مشاہدہ کر رہا ہے، اسی اعتبار سے درست ہے۔
قصرِ تصوف کی بنیادیں عشق پر قائم ہیں۔ ہر عاشق کی طرح صوفی بھی ایک محبوب کا متلاشی رہتا ہے۔ لیکن چونکہ صوفی کا محبوب جسم و جسمانیت سے منزہ اور حدودِ زمان و مکان سے ماوراء ہے اس لئے اس کو عملی دنیا میں سکون و اطمینان نہیں ملتا، مادی عالم میں اس کے تکمیلِ ذوق کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔ مجبوراً وہ اس کے تلخ حقائق سے گریز کر کے خواب و خیال کے عالم میں اپنی تسکین کا سامان تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں حسن کا ایک دھندلا سا مرقع اٹھائے پھرتا ہے۔ مگر اس کو کوئی مرئی شکل رکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ ایک حسین و جمیل خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جس میں صرف شعر و موسیقی کا مترنم امتزاج، چرس شراب افیم وغیرہ اس کے جذبات و اضطراب کے ساتھ کھیل کھیل کر انہیں بہلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
تصوف اور عشق، صوفی کا ایک روحانی محبوب ہے جو اپنے شکار کو دنیاوی حقیقتوں سے بہکا ہنکا کر روز ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔ وہ تصور ہی تصور میں اپنے محبوب سے راز و نیاز کرتا ہے۔ اس پر اکثر بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اکثر صوفی اپنے روحانی محبوب کے عشق میں دنیاوی اور معاشرتی تقاضوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، جن کا کرنا ہر انسان کا فرض ہوتا ہے۔
‘روحانی محبوب’ کا نظریہ درحقیقت کوئی اصل، کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ دنیا میں مذاہب اور بغیر مذہب کے بھی تصوف کا نظریہ ہر دور میں ہر قوم میں پایا گیا ہے۔ صوفیائے کرام، جوگیوں اور راہبوں کی محبت اور عشق کا تعلق ہمیشہ روحانیت سے ہی رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اسی کے ذریعہ سے ‘خدا’ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ رابعہ بصری کا عشق بھی یہی عشق تھا، جسے جدید نیوروسائنس، علم النفسیات ایک دماغی بیماری قرار دیتے ہیں۔ عیسائیوں، ہندوؤں میں بھی ایسی ہستیاں گزری ہیں جن کا محبوب ایک خیالی دوست یعنی خدا تھا۔ عیسائیت میں تو اب بھی جب کوئی نن نقاب کرتی ہے تو خدا کو ہی اپنا محبوب تصور کرتی ہے، اور مقدس انگشتری کے مل جانے کے بعد خود کو مسیح کی دلہن تصور کرتی ہے۔
فرائیڈ کے مطابق تمام صوفیانہ تجربات دراصل جنسی دباؤ اور گھٹن کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ اس نے چیلنج کیا تھا کے کوئی بھی صوفی اپنے اندرونی باطنی تجربات سچائی کے ساتھ اس پر ظاہر کر دے تو وہ یہ بات ثابت کر دے گا کہ ان کی ‘صوفیانہ حقیقت’ کی بنیاد جنسی جذبات ہی ہیں۔ میری نظر میں آج تک کوئی ایسا صوفی نہیں گزرا جس نے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہو۔
بہرحال، تصوف میں انسان حقیقی دنیا سے فرار حاصل کر کے ایک ذہنی تعیش کی دنیا تلاش کرتا ہے۔ جو کوئی روحانی دنیا کی ‘حقیقتوں’ میں جذب ہونے کی خواہش رکھتا ہے، خارجی دنیا سے، حقیقی دنیا سے نفرت کرنے لگتا ہے یا پھر کم از کم اس سے اور اس کے معاملات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ اور روحانی دنیا اور اس کے معاملات کو حقیقی دنیا اور اس کے معاملات پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ اس کے مطابق تو اس کا مقصدِ حیات حقیقی دنیا کی مشکلات سے فرار نہیں بلکہ روحانی دنیا کی حقیقتوں تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔
اہلِ تصوف کے مسائل ان کے اپنے خیال میں مسائلِ کشف ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے مشاہدات ان علومِ باطنی کا نتیجہ ہوتے ہیں جو سالہائے سال کی عرق ریزیوں، شدید ریاضتوں اور شب زندہ دیواروں کے بعد سرحدِ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ عام لوگوں کی عقلیں ان ‘جلیل القدر مسائل’ اور دقیق روحانی نکات کو قبول کرنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتیں، لہذا تعلیماتِ تصوف میں رازداری کی لہر دوڑی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں خاصہ اہتمام روا رکھا جاتا ہے۔ مسائلِ روحانی کو عام فہم زبان میں بیان کرنے سے احتراز برتا جاتا ہے۔ لہذا اس سعی کو شاعری سے بہتر پناہ کہاں مل سکتی تھی؟ اس لئے اظہارِ خیال کے واسطے سے اس ذریعہ سے خوب فائدہ اٹھایا گیا۔ سطحیات کے پردہ میں صوفیا نے کیا کچھ نہ کہا؟ رومی کی ہی مثال لیجیے۔
رومی ترکی کے ایک بہت بڑے صوفی تھے۔ مولانا کے فرقے کے لوگ ‘جلالیہ’ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب ‘جلال’ تھا، اسی لئے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک میں، شام، مصر، قسطنطنیہ میں اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو ‘مولویہ’ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پہ عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتے کی بجائے ایک چنٹ دار پائجامہ ہوتا ہے۔
اس فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں، ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک جگہ جم کر مستقل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نَے بھی بجاتے ہیں۔
مولانا اپنے دور کے اکابر علماء میں سے ایک تھے اور فقہ و مذہب کے بہت بڑت عالم تھے۔ شمس تبریزی سے ایک اتفاقی ملاقات کے بعد مولانا نے ان سے گہرا اثر لیا اور طریقت و عشق کی راہوں کو اپنا لیا اور ایک عظیم تخلیق ‘مثنوی مولوی معنوی’ تصنیف کی۔ مثنوی مولوی معنوی کے سرورق پر لکھا ہے:
ہست قرآن در زبان پہلوی
ترجمہ: یہ فارسی زبان میں قرآن ہے۔
اور مولانا کے قرآن میں ہے کیا؟
عشق و عاشقی، ہجر و فراق، رقص و موسیقی، وحدت الوجود و نظریہ حلول، عجیب و غریب کرامات، حکایات و واقعات۔ یہی سب کچھ اس مشہور تین جلدوں اور ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل مثنوی مولوی معنوی میں موجود ہے۔ رسول اللہ کا قرآن یوں شروع ہوتا ہے: الحمداللہ رب العالمین
تمام تعریفیں اللہ ہی کیلیے ہیں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
مولانا رومی کا فارسی قرآن یوں شروع ہوتا ہے:
بشنوازے چوں حکایت می کند وز جدا می کھا شکایت می کند
ترجمہ: بانسری سے سن کیا بیان کرتی ہے اور جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔
اسی کے بعد مولانا مزید اپنے قرآن میں فرماتے ہیں۔ ترجمہ:
عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے۔ عشق کا جوش ہے جو شراب میں آ گیا ہے۔
ابو داؤد اور مسند احمد کی ایک معروف حدیث کے مطابق جب رسول اللہ نے دورانِ سفر کسی چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو رسول اللہ نے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور راستہ بدل لیا تھا۔ کہاں تو رسول اللہ کو بانسری سے سخت نفرت تھی اور کہاں رومی کا قرآن شروع ہی بانسری کے تعریف سے ہوتا ہے۔
استعارات و تمثیلات جو شاعری کی زینت ہیں، صوفیانہ حال کی ترجمانی میں معاون ہیں۔ تمام صوفیانہ ادبیات میں رمزیت پسندی کی بہتات ہے۔ اس ضمن میں ہر صوفی، ولی، بزرگ کہلائے جانے والے کسی بھی معتبر صوفی کا کلام اٹھا کر دیکھ لیجیے، کہیں سے بھی شروع کر لیجیے، اس پردے میں وہ کچھ نظر آئے گا کہ الامان۔
اسلامی تصوف کے ماخذ۔
برِ اعظم ایشیا کی سرزمین وہ جگہ ہے جہاں سے دنیا کے قریب قریب تمام بڑے مذاہب جاری ہوئے۔ اور روحانیت کے کئی بیش قیمت آفتاب اس سرزمین سے طلوع ہوئے۔ مصر و عرب، ایران و چین و ہندوستان اپنی باطنی اور روحانی تعلیمات کے اعتبار سے تمام ممالک میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن مغرب بھی کسی طور کسی سے پیچھے نہیں۔ جہاں مشرق میں تاؤ، کنفیوشیس، مہاویر، گوتم، اور فلسفہ ویدانت دینے والے اخلاقی مفکرین آتے رہے وہیں مغرب کی سرزمین بھی باطنی مسالک اور روحانی میلانات و مشاغل سے پُر ہے۔ چاہے قدیم اہلِ یونان کی ناستیت gnosticiam ہو یا میڈم گائیس اور فینی لون کا quietism ہو یا مولیناس کا pietism، المانیوں کا مسئلہ کشف doctrine of illuminati ہو یا سوئیڈن برگ کا مکاشفات vision ہو، سب میں باطنی ذوق کارفرما رہا ہے۔
حکیم فیثا غورث نے اپنے تلامذہ کیلیے پانچ سال تک خاموش رہنے کی تعلیم لازمی قرار دے دی تھی۔ جس کے بعد وہ ان کو اپنے روحانی مسلک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا تھا۔ اسی طرح ایک گروہ اشراقیت جدید neo-platonism کا تھا۔ اشراقیت جدید ایک روحانی مسلک ہے۔ جس کا بانیِ اوّل افلاطون یونانی تھا۔ لیکن افلاطون کا یہ فلسفہ اس کے شاگرد اسپیوسیس speusippus اور زینا کریٹز xenocratez کے بعد ختم ہو چکا تھا۔ اشراقیت جدید وہ دبستانِ علم ہے جو بہت بعد میں فلاطنبوس نے قائم کیا۔ یہ شخص اسکندریہ مصر کا باشندہ تھا اور اس کا زمانہِ حیات 202ء سے 270ء تک ہے۔ اس دبستانِ علم میں افلاطون اور فیثاغورث کے نظریات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اسکندریہ کی جغرافیائی حیثیت یعنی اس کے ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقعہ ہونے کی وجہ سے اس نظامِ فکر میں اہلِ مشرق کا نظریہِ ظہور بھی شامل ہو گیا۔
یونان میں فلسفہ کی روایت کا آغاز سات سو قبل از مسیح میں ہوا۔ اس روایت کا اولین بانی یونان میں طالیس تھا جس کے متعلق مورخین خیال کرتے ہیں کہ اس نے حصولِ علم کی خاطر مصر، بابل اور ایران کا سفر کیا۔ ایران اور بابل کی سرزمین ہند کی علمی روایتوں سے کشید کرتی رہی۔ لہذا یونانی فلسفہ اپنی پیدائش میں اہلِ مشرق کی علمی روایات کا مرہونِ منت ہے۔
فیثا غورث نسخ ارواح کا قائل تھا اور تاریخ شاہد ہے کے نسخ ارواح کا نظریہ ہندوستانی سرزمین کے تمام شاستروں، ہندومت، بدھمت اور جین مت کی تعلیمات کا بنیادی عنصر تھا۔ علاوہ ازیں تاریخ میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ فیثا غورث نے بھی حصولِ علم کی خاطر مشرق کا سفر کیا۔ لہذا یونانی فلسفہ فیثا غورث کی شکل میں مشرقی روایات سے اثرات قبول کرتا ہے۔ اب چونکہ افلاطون کے نظریہ امثال اور مابعد فلاطینوس کے نظریہ صدور میں فیثاغورثی عناصر شامل تھے، اور یہی نظریات نوفلاطونیت کی صورت میں تصوف میں متشکل ہوئے۔ لہذا اپنی ہیئیت میں یہ خالص مشرقی فلسفہ کے اثرات کے حامل ہیں۔ خود فیثا غورث، عارفیوس کا پیرو تھا جو ایک مجذوب الحال صوفی اور گویا تھا۔ جس نے عارفی مت کی بنیاد رکھی جو اپنی ساخت میں بدھ مت سے حد درجہ مماثلت رکھتا ہے۔ عارفیوس کے مطابق جسم روح کا زندان ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی جنم چکر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس لئے انسانی زندگی کا مقصد اس زندان سے روح کی نجات میں منحصر ہے۔ عارفیوس کے مسلک کے پیرو ڈاوئینیوسس کی پوجا کیلیے شراب پی کر دیوانہ وار رقص کرتے۔ ہیروڈوٹس کے مطابق یونانیوں نے بقائے روح اور نسخ ارواح کے عقائد مصریوں سے لئے۔ فیثا غورث کا کہنا تھا کے جس طرح بیج درخت بنتا ہے اور درخت سے پھر دوبارہ بیج پیدا ہو کر دوبارہ درخت بن جاتا ہے، اسی طرح انسانی روح قالب بدلتی ہے۔ فیثاغورث نے یونانی فلسفہ کو ریاضیات اور روحانیت کی راہ دکھائی۔ ہندوستانی اعداد و شمار اور جیومیٹری میں خصوصی شغف رکھتے تھے۔ جو فیثاغورث کے فلسفہ میں اس حد تک نمایاں ہوا کے بعد میں فلسفہ کا جزو لاینفک بن گیا۔ افلاطون سے لے کر ڈیکارٹ، اسپوئنوزا اور لائیبنز تک کا فلسفہ ریاضیاتی اثر لئے ہوئے ہے۔ اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ علم الاعداد، ہندسہ اور الجبرا جو سائنس اور فلسفہ کا بنیادی پتھر ہے، اہلِ مشرق کی خلّاق ذہنئیت کا مرہونِ منت ہے۔
آرفیوس کے نظریات کا فیثاغورث کے نظریات پر گہرا اثر ہے۔ ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ یونان کے بیشتر نظریات، ہند کے گہرے فلسفیانہ نظریات سے کشید شدہ ہیں۔ کیونکہ آرفیوسس کے علاوہ اس دور کے دیگر اہم فلاسفہ نے بھی مختلف ممالک کی سیاحت کی، ان کے فلسفہ حیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ اور انہیں ان فلسفہ کے اصل ماخذ اور عالموں سے سمجھا۔ اور اپنے انہی اسفار اور مطالعہ اور براہ راست و بلا واسطہ حاصل شدہ علم کی بنیاد پر نئے نظریات کی بنیاد رکھی۔
فیثاغورث transmigration of soul پر یقین رکھتا تھا جو کہ خالصتاً اہلِ ہند کا فلسفہ تھا۔ لطف کی بات ہے کہ اس ضمن میں مثلاً transmigiration of soul اور اسی قسم کے دیگر نظریات کے رد میں ہندوستان میں نو صدی قبل از مسیح میں ہی بیشتر فلسفیوں نے کام شروع کر دیا تھا۔ اور عقلی و منطقی بنیادوں پر اس کا انکار کر کے عقلیت کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ ان اولین فلاسفہ میں سے چارواکاس اور برہاس پتی کے نام نمایاں ہیں۔ جبکہ یونان میں ان کے دور کے کئی عرصہ بعد جا کر مثالیت اور پھر اس کے بھی بعد مادیت اور عقلیت پسندی کی بنیاد پڑی۔ لیکن فیثاغورث کا یہ کارنامہ قابلِ تحسین ہے کے اس نے فلسفہ میں ریاضی کو شامل کیا، اور یوں تقریباً استقرائی منطق کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ وہ ہندسہ اور ان کے آپسی داخلی تعلق سے اس کائنات کی توجیہ کرنے کا نظریہ رکھتا تھا۔ اور کائنات اور اس کے ظواہر کے داخلی تعلق پر ایمان رکھتا تھا۔ اشراقیت جدید میں اسٹوئکس، سقراط کے خیالات سے بھی استفادہ کیا گیا۔ پھر بعد ازاں اس میں ایرینس کی الہیات مدغم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں موضوعی بنیادوں پر اس عالمِ رنگ و بو پر بحث کی گئی ہے۔ اور کائنات کی غرض و غایت پر سوال اٹھاتے وقت اشیاء کے داخلی تعلق کی وجدانی حقیقت پر زور دیا گیا ہے۔
نوفلاطونیت یونانی عقلیت اور مشرقی وجدانیت کا امتزاج ہے۔ فلوطینوس اور اس کے شاگرد فرفریوس نے اسے باقاعدہ منظم انداز میں مرّتب کیا۔ توریت کی رو سے کائنات اور خدا کے درمیان لوگوس بمعنی کلمہ کا واسطہ ہے۔ قرآن کی رو سے خدا نے کلمہ ‘کن’ کہہ کر کائنات کو عدم سے وجود بخشا۔ منطقی رو سے کوئی شے عدم محض سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ لہذا فلاسفہ نے خدا اور کائنات کے درمیان ایک واسطہ پیدا کرنے کی کوشش کی تا کہ مذہب اور فلسفہ کے درمیان باہمی تطبیق پیدا کی جا سکے۔ نوفلاطونیت اسی سعی کا حامل ہے۔ یہ اولین کوشش ہے جو اس مقصد کیلیے کی گئی۔ بعد میں علم الکلام (فلسفہ اور مذہب کے درمیان تطیق پیدا کرنے کا علم) اور مسلم فلسفہ اس سے حد درجہ متاثر ہوا۔
اشراقیتِ جدید کے سقم بعد میں مسلم فلاسفہ الکندی، الفارابی اور ابنِ سینا نے دور کیے۔ اور اپنے اپنے وقت کا سب سے زیادہ مسلمہ اور مقبول فلسفہ بنا دیا۔ ابن العربی نے اس فلسفہ کو اسلامی تصوف میں ڈھالا۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہوا۔ اور سب سے زیادہ ذہنِ انسانی کو متاثر کرتا رہا۔ اور آج بھی تصوف کی شکل میں پائندہ ہے۔
افلاطون نے وجود اور عالمِ ظواہر پر بحث کرتے ہوئے سوال اٹھایا کے حقیقتِ کہنہ کیا ہے؟ یا پھر ہونے سے کیا مراد ہے۔ اور جب سوال اول کہنہ حقیقت کا آتا ہے تو افلاطون اسے سقراط کی زبان میں پیش کرتا ہے۔ دراصل افلاطون، کانٹ اور بریڈلے وہ فلسفی ہیں جنہوں نے خاص طور پر مجاز اور حقیقت کے فرق کو سمجھنے اور سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ تصوریت کے دونوں مکاتبِ فکر، موضوعی عینیت اور معروضی عینیت میں تغیر میں غیر تغیر کو فرض کر لیا گیا ہے۔ اور مادہ میں روح کو ڈھونڈنے کی سعی کی گئی۔ اقدار کو ابدی بتایا گیا۔ موجودات کو مظاہر کہہ کر حقیقتِ ابدی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور حقیقت کو جوہریت سے آزاد قرار دیا گیا ہے۔ افلاطون کی فکر کا سادہ ترین بیان یہ ہوگا کہ جو نظر آتا ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا پرتو ہے۔ بذریعہ حواس ہمیں یا بدلتی دنیا سے سابقہ پڑتا ہے یا عقائد سے، جنہیں علم نہیں کہا جا سکتا۔ علم اپنے حقیقی معنوں میں ابدی غیر متغیر اور کُلی کا عرفان ہے۔ اور کیونکہ موجوداتِ عالم وہ اشیاء اور جسام جنہیں ہم عام طور سے حواس و محسوسات کے واسطے سے جانتے ہیں، اپنی شکل و ہیئیت بدلتے رہتے ہیں۔ لہذا نہ انہیں غیر مبتدل کہا جا سکتا ہے۔ نہ ان سے ہماری واقفیت صحیح معنوں میں علم کہلانے کی مستحق ہے۔ عقائد کی دنیا سے آگے فہم کی دنیا آتی ہے جہاں تعلق تو کم و بیش مستقل حقائق سے ہوتا ہے لیکن یہ دنیا بھی محسوسات سے آلودہ ہے۔
افلاطون ریاضیاتی حقائق کو اس دنیا کا رکن قرار دیتا ہے۔ یہ حقائق یقیناً حواس کی متغیر دنیا سے مختلف ہیں۔ لیکن ان کو جاننے کیلیے بھی اکثر محسوسات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس سے آگے کی منزل ابدی، غیر متغیر اور سرمدی حقائق کی دنیا ہے۔ یہ ابدی حقائق جنہیں اعیان ideas یا ابدی صورت forms کہا گیا ہے، بذریعہ عقل جانے جاتے ہیں۔ ان حقائق میں اعلیٰ ترین مقام خیر کو حاصل ہے۔ اور اس کے بعد حسن و صداقت کا مقام آتا ہے۔ کائنات کے موجودات، انہی ابدی اور بے بدل اعیان کا پرتو ہیں۔ یہی اعیان حقیقی ہیں۔ باقی جو کچھ ہے اس حقیقت سے تعلق رکھتے ہوئے کائنات میں موجود ہے اور جگہ پاتا ہے، یہی مجاز ہے۔
مختصراً اشراقیت جدید کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو حقیقت مطلقہ یعنی کائنات کا علم و عرفان حاصل کر کے اس سے واصل ہونا چاہیے۔ اس میں ایک ایسی استعداد موجود ہے جس کی مدد سے وہ اپنے تجرباتی علوم کی حد سے گزر کر حقیقت واحدہ کا وجدانی علم حاصل کر سکتا ہے اور اپنی شخصیت کو فنا کر سکتا ہے۔ اس فلسفہ کے معلمین کے نزدیک خدا گویا ایک صوفیانہ مثلیث mystical trinity کی حیثیت رکھتا ہے۔
روحِ اعظم divine nature تین حیثیتوں کی مالک ہے۔ اس کی اصل و حقیقت خالص وحدت یا نورِ ازلی ہے۔ یہ وحدت خود متعین نہیں بلکہ تمام اشیاء کی اصل ہے۔ خیر کُل غیر متناہی ہے۔ اور اگرچہ ادراک سے بالاتر ہے، لیکن انسان میں ایک قوت ایسی ہے جو اسے اس کے وجود کا یقین دلاتی ہے۔ اس وحدت سے پہلے عقلِ کامل کا ظہور ہوا جو اس کی مظہر ہے۔ عقلِ کامل سے روحِ کائنات وجود میں آئی۔ جس کی تخلیقی حرکات سے روح انسانی و حیوانی کا ظہور ہوا۔ اور اس سے بالآخر مادہ ظہور پزیر ہوا۔ اسی طرح وحدت، عقلِ کامل اور روحِ کائنات کے ذریعے اشراقیتِ جدید میں ایک ظہورِ دائمی کا نظریہ پیش کیا گیا۔
رومنز فلسفی، عیسائی ماہرِ الہیات اور مسلمان اس نہ سے نہ صرف متاثر ہوئے، بلکہ اس کو اپنایا بھی، اور اپنی الہامی تعلیمات میں تصورِ خدا بھی ایسا ہی تراشنے لگے، اور اس کی توجیہات بھی اس سے کرنے لگے۔ جنید بغدادی نے رسالہ قصد الی اللہ، معاذ رازی نے کتاب المریدین، شیخ ابو النصر سراج نے کتاب اللمع لکھیں، جس میں اشراقیت جدید کی گہری چھاپ نمایاں ہے۔ پھر عبدالکریم بن ہوازن قشیری نے رسالہ قشیری لکھا جس میں بہت سی صوفیانہ اصطلاحات متعارف کرائی گئیں جو الہیات کے سرمایہ افتخار عالم ایریس، پلوٹینس کے نظریات سے مستعار شدہ تھیں۔ جن پر عینیت کا رنگ نمایاں تھا۔ پھر ابنِ عربی نے اس نظریہ کو جلا بخشی۔ ابنِ عربی وہ پہلا شخص تھا جس نے وحدت الوجود کو عقلی و منطقی بنیادوں پر استوار کرنے کی سعی کی۔ جبکہ غزالی جنہیں حجتِ اسلام بھی کہا جاتا ہے، نے مسائل تصوف اور شریعت اسلامی میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے مسلک صوفیا کو نگاہِ شریعت میں ایک مستند و معتبر مقام مل سکا۔ غزالی کی احیاء العلوم، کیمیائے سعادت اور مشکوۃ الانوار پر نوفلاطونیت کے افکار و نظریات کا خاصہ گہرا اثر ہے۔
آغاز میں یوں تو تصوف کے مختلف سلسلے قائم ہوئے جو بڑھتے بڑھتے سینکڑوں اور اب ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ابتدائی سلاسل میں سے چند کے نام احباب کی دلچسپی کے پیشِ نظر درج ذیل ہیں۔ محاسبیہ، جس کے بانی عبداللہ حارث محاسبی ہیں۔ جنہوں نے حال و مقام کے اصطلاحی فرق کو واضح کیا۔ قیصریہ، جس کے بانی شیخ قیصری ہیں، یہ سلسلہ ملامتی ہے۔ جس کے پیروکار بظاہر ملامت و رسوائی اختیار کرتے ہیں لیکن گوتم کی َزبان میں ان کا مقصد بھی باطن کی صفائی کی جد وجہد ہی ہے۔ مقصد نروان حاصل کرنا۔ طیغوریہ، اس کے بانی ابو یزید طیغوری بسطامی ہیں۔ یہ صوفی ہونے سے پہلے مسلم دنیا کے اکابر علماء میں شمار کیے جاتے تھے، امام العلماء کہلاتے تھے۔ جنیدیہ کے بانی جنید بغدادی تھے۔ انہیں بھی سیّد الطائفہ، طاؤس العلماء وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ان کا خاص شغل مراقبہ اور طریقہ کی بنیاد صحو و عشق تھا۔ شروع شروع میں اس (تصوف) کی تعلیم و تلقین اشاروں کنائیوں میں ہوا کرتی تھی، یہ خلوت میں نشونما پاتا رہا، لیکن رفتہ رفتہ یہ عام مجمعوں میں بے نقاب ہونے لگا۔ سینوں میں چھپے راز زبان زد عام ہونے لگے۔ چوتھی صدی میں حسین بن منصور کو اسی بنا پر سولی پر چڑھا دیا گیا۔
پھر چھٹی صدی ہجری میں محی الدین عربی آئے۔ جنہوں نے وحدت الوجود کو فلسفیانہ اور استدلالی رنگ میں پیش کیا۔ انہیں شیخ اکبر، تبحر علمی جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
وحدت الوجود کے مطابق وجود صرف وحدت کا ہے۔ یعنی حقیقی وجود کے اعتبار سے محض وحدت ہی وحدت ہے۔ بالفاظ دیگر وحدت یعنی خدا کے سوا کسی شے کا وجود ہی نہیں۔ لیکن کائنات اور اس کے ظواہر، موجوداتِ کائنات ہر وقت انسان کے مشاہدے اور زیرِ استعمال رہتی ہیں، وہ بدیہی طور پر تو موجود نظر آتی ہیں۔ لیکن وجود کو وحدت محض میں منحصر کر دینے کے بعد ان سب کے وجود سے انکار کرنا لازم ہے۔ جو کے ظاہر ہے ایک تعجب خیز اور ناقابلِ قبول و قطعی طور پر خلافِ مشاہدہ اور غیر سائنسی بات ہے۔ وجودِ کائنات کی تاویل کیا کی حائے گی پھر؟ اگر کہ کائنات وجود رکھتی ہے لیکن اس کا وجود حقیقی نہیں۔ وہ خدا کے وجود کا صرف پرتو ہے۔ خدا کی صفات میں اگرچہ تعدد ہے لیکن تمام صفات عین ذات ہیں۔ کائنات تجلی صفات کا نام ہے۔ اس لیے بھی اپنے ظہور میں کائنات عین ذات ہے۔ وجودِ کائنات کچھ نہیں محض ظہور ہے۔ اس لیے کائنات اور ذات میں علاقہ عینیت ہے۔ اور ذات چونکہ وحدتِ مطلقہ ہے اس لیے وجود وحدت ہی وحدت کا ہے۔ یہی عقیدہ وحدت الوجود ہے جو ہمہ اوست کی تشریح ہے۔ ابنِ عربی کے مطابق کائنات ایک قسم کے نظریہ ظہور emanation سے وجود میں آئی جس کی تفصیل جیسا کہ ابنِ عربی اور ان کے متبعین بیان کرتے ہیں۔
پھر کئی عرصہ بعد شیخ احمد سرہندی نے، جنہیں مجدد الف ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، وحدت الوجود کو باطل قرار دیا اور اس کے مقابل نظریہ توحید شہودی پیش کیا اور اس کی تعلیم دی۔ انہوں نے کشف و استدلال کی مدد سے وحدت الوجود کو غلط اور وحدت الشہود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مجدد الف ثانی کے بقول وحدت الوجود شریعت کے خلاف ہے کیونکہ وہ تعلیمِ وحی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جبکہ وحدت الشہود ‘عین الیقین’ ہے۔ مگر پھر یہ بھی کہتے ہیں کے کائنات کی معیت و عینیت ہستیِ مطلق کے ساتھ جو قائم بالذات ہے، ہر گز حدود اثبات میں نہیں آ سکتی۔ صاف لفظوں میں مجدد الف ثانی غزالی کی تجدید کر رہے ہیں کہ عقلِ انسانی اس قابل نہیں کہ وجودِ باری تعالیٰ تک پہنچ سکے۔ لہذا عقل اس تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں کیونکہ وہ عقل سے ماوراء ہے لہذا صرف اس بنا پر اس پر ایمان رکھتے ہوئے اسے تسلیم کر لیا جائے۔ لطف تو یہ ہے کہ اس کی کوئی عقلی دلیل بھی پیش نہیں کرتے۔
ان دنوں یوں تو تمام دنیا میں اسلامی تصوف کے کئی فرقہ، مسلک پائے جاتے ہیں۔ ہند و پاک میں بھی۔ لیکن ہندوستان میں پائے جانے والے چار بڑے مسالک کا ذکر درج ذیل ہے۔ چشتیہ، جس کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی تھے۔ جو داتا گنج بخش کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔ جنہیں سلطان الہند اور غریب نواز کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ صوفیائے ہندوستان میں غریب نواز ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ برِ صغیر میں سب سے پہلے اسلامی تصوف کے سلسلہ کا آغاز خواجہ معین الدین سے ہی ہوا۔ اس سلسلے میں راگ اور سماع کو خصوصی مقبولیت حاصل ہے۔ پھر سہروردیہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ جس کے بانی شیخ بہاؤ الدین زکریا تھے جو ملتان میں پیدا ہوئے۔ تیسرا بڑا مسلک سلسلہ قادریہ کے نام سے مشہور ہے جس کا آغاز سلطان سکندر لودھی حضرت سید محمد غوث سے ہوا۔ جن کا شجرہ نسب نو واسطوں سے شیخ عبدالقادر گیلانی بانی سلسلہ قادریہ سے ملتا ہے۔ لودھیوں کے دورِ حکومت کی ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ اس زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوئے جنہوں نے مختلف مذاہب کے عقائد کو ملا جلا کر ایسے فرقوں کا آغاز کیا جن میں ہر مذہب کی تعلیمات کا رنگ موجود تھا۔ جیسا کہ کبیر۔ جن کی تحریک بھگتی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ جو تاریخ تصوف میں نہایت اہمیت کے حامل تصور کیے جاتے ہیں۔ ان مختلف تحاریک کی بدولت ہندوستانی خیالات و مشاغل، یوگ کے طریقے، حبس دم وغیرہ اہلِ تصوف کے حلقوں میں راہ پا گئے۔ رفتہ رفتہ ان کو اچھی خاصی مقبولیت حاصل ہو گئی۔ ان حالات کی بدولت ہندوستان میں مذہبی اختلافی فضا میں رنگِ اتحاد بڑھنا شروع ہوا۔
پھر نقشبندیہ کا نمبر آتا ہے جس کی ابتدا عہدِ اکبری میں حضرت خواجہ باقی رحمت باللہ سے ہوئی۔ لیکن اس سلسلے کو فروغ دینے والے شیخ مجدد الف ثانی تھے۔۔ شاہ ولی اللہ کا تعلق بھی اسی مسلک سے تھا۔ جنہوں نے تصوف پر القول الجمیل، تفہیمات الہیہ، القاس العارفین جیسی کتب لکھیں۔ ایک رسالہ ‘فیصلہ وحدت الوجود و الشہود’ لکھا جس میں شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود کی تاویل کر کے اسے شیخ مجدد کے نظریہ وحدت الشہود کے مطابق ثابت کیا۔ اسی زمانے میں دارا شکوہ نے اسلامی تصوف اور ہندوستانی یوگ یکجا کر کے دونوں طریقوں میں مشابہت کو ثابت کیا۔ ان کی کتاب مجمع البحرین اسی موضوع پر ہے۔ اس وقت کے علماء نے دارا شکوہ کی مخالفت میں بڑا ہنگامہ برپا کیا۔
بہرحال، اکثر و بیشتر صوفیا کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام ہندوستان میں بزورِ بازو نہیں پھیلا بلکہ بطورِ استدلال پھیلا جس کا سہرا ہندوستان کے صوفیاء کے سر باندھا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں اسلامی تعلیمات محبت و امن سے پھیلائیں۔ پھر نہ جانے محمد بن قاسم، غزنوی وغیرہ وغیرہ جیسے جنگجو شاید مٹھائیاں، پھولوں کے گلدستے بانٹنے سر زمینِ ہند پہ وارد ہوئے تھے۔ جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کے اہلِ عرب و ہند کے تعلقات فاتحینِ عرب کی آمد سے بہت پہلے قائم ہو چکے تھے، گو کہ ان تعلقات کی ابتدا متعین طور پر نہیں بتائی جا سکتی۔ بہرحال، صوفیاء کرام کا ہند میں تبلیغ کا طریقہ ہند کے بھکشوؤں سے ملتا جلتا ہے۔ جنہوں نے اپنی سادہ تعلیمات بدھ مبلغین کے ذریعے عام فہم انداز میں پیش کیں، اسے ہند کے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جس بنا پر یہ اپنے وقتوں کا انقلابی فلسفہ ثابت ہوا۔ اور لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے گئے۔ بدھمت بھی صرف رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا۔ بدھمت میں دنیا دار لوگوں کو پاسکی کہا جاتا ہے اور نوے فیصد بدھ پاسکی ہی تھے۔ عہدِ قدیم میں جو بدھ کی اعلیٰ تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔ جب کہ صوفی ٹائپ لوگوں کو تیاگی یا سنگا کہا جاتا تھا۔ جس میں وہ اسلامی درویشوں کی طرح دنیا تیاگ دیتے تھے۔ انہی تیاگیوں کی بدولت بدھمت کا فلسفہ برصغیر کے دور دراز علاقوں تک پہنچا۔ جسے اسلامی صوفیاؤں نے ہندوستان کے علاقوں تک پہنچایا۔ لہذا یہ طریقہ کار بھی دنیا بھر کے صوفیا کا خاصہ ہے محض اسلامی صوفیا کا طرہ امتیاز نہیں۔ ویسے بھی آج مسلمان جن صوفیا کے اس کارنامے پہ پھولے نہیں سماتے اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ مسلمان صوفیاء تھے، لیکن اگر وہ انہی صوفیاء سے متلعق جانیں، ان کی سوانح، اقوال و اشعار کا مطالعہ کریں تو ان کے دماغوں کے فیوز بھک سے اڑ جائیں۔ محض ان صوفیاء کے فرقہ کا ہی پتہ لگ جائے تو ایک اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں فوراً سے پہلے ان کے فرقہ کی بنیاد پر انہیں کافر قرر دے دیں۔ مثلاً شمس تبریزی جیسے بزرگ کی مثال ہی لے لیجیے۔ اسماعیلی تھے۔ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو وہابی، سنی اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں، یہ شاید بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔
صوفیاء کا علم ان کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ‘تجربات’ عالمِ خیال سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس سے باقی سب نا آشنا رہتے ہیں۔ صوفیاء اپنا یہ ‘علم’ صرف اسی پہ آشکار کیا کرتے ہیں جو ان کے خیال میں اس کو سنبھال سکے۔ سائنسدان محقق حضرات کی طرح ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اس ‘علم’ سے مستفید نہیں ہونے دیا جاتا۔
صوفیاء کے پاس کوئی منطقی اکویشن نہیں ہوتی جس سے وہ اپنے علم کو برحق اور اپنے دعووں کو سچا ثابت کر سکیں۔ اہلِ مذاہب کی معتبر شخصیات کی طرح اہلِ تصوف کا یہ دعویٰ بھی ہے کے ہم نے سب کچھ جان لیا کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اس کائنات اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کے اپنا یہ علم صوفیاء عام نہیں کرتے، شاید سائنس سے وابستہ حضرات کی روزی روٹی کے چلے جانے کی وجہ سے۔ کہ اگر انہوں نے اپنا علم خلقِ خدا کیلیے عام کر دیا تو اہلِ علم حضرات کی دال روٹی کیسے چلے گی؟۔
مذہب انسانی سوچ کو مفلوج کرتا ہے۔ تصوف بھی ان سے جدا نہیں۔ مذہب سوچ کو مفلوج کرتا ہے تو تصوف بزبانِ دیگراں who cares سکھاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مذہب کے طریقہء کار کا باغی ہو کر بھی تصوف نے مذہب کو ہی اپنی ڈھال بھی بنا رکھا ہے۔ زیادہ تر صوفی مذہبی قوانین کو نہیں مانتے، مذہب سے آزادی کے قائل ہوتے ہیں۔ اگر مذاہب چھوڑنے کا جمہوری حق دیا جائے تو میرے خیال سے پہلا مشرک پہلا کافر صوفی ہوگا۔ ویسے بھی صوفی اور کفر میں فرق صرف چولے کا ہے۔ تصوف، مذہب کی آڑ میں بیٹھا منافقت کی تعلیم دے رہا ہے۔ لیکن ہمیں ایسی منافقت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔
اولیائے کرام کی کرامات و معجزات کے نام پر عجیب و غریب قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ پھر ضعیف الاعتقادی کا اصرار ہوتا ہے کہ انہیں من و عن تسلیم کیا جائے۔ کامل یقین رکھا جائے۔ صوفی بزرگوں کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو خیال ہوتا ہے جیسے کوئی الف لیلوی داستان پڑھ رہے ہوں یا زمانہ شجاعت میں لکھی گئی کسی داستان کا مطالعہ کر رہے ہوں۔ مثلاً جنید بغدادی کا دجلہ پر تشریف لے جانا اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر مثل یوں چلنا کہ گویا دجلہ کا بہتا پانی نہ ہوا، ٹھوس زمین ہوئی۔ بی بی مریم کے حجرے میں بے موسمی پھلوں کا واسطے ان کی غذا کے آ جانا۔ حضرت سلمان کے تخت کا اڑنا پھرنا، سورج کا سوا نیزے پہ اتر آنا، کعبہ کا پاؤں کی حرکت کے ساتھ حرکت کرنا، کعبہ کا اپنی جگہ چھوڑ کر بزرگ ہستی کے استقبال کیلیے اپنی جگہ چھوڑ کر نکل جانا، کعبہ کا بزرگ کی کٹیا کا طواف کرنا، بجلی کا لوٹے میں قید کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتوں کو برحق سمجھا جائے، کہ یہ کراماتِ اولیاء ہیں جو اپنے تئیں کسی خدا کے محبوب، برگزیدہ پہنچے ہوئے بندے ہیں۔
گو کہ مجھے تصوف کی ایک خوبی کا کھلے دل سے اعتراف بھی ہے۔ کہ یہ بلاشبہ امن، محبت کا پیغام دیتا ہے۔ مذہبی رواداری کا درس دیتا ہے۔ بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت کی تلقین کرتا ہے۔ بظاہر یہ اس کی بہت اچھی خوبی ہے۔ جس پر اہل تصوف کیلیے ہر سال نوبیل کے امن انعام میں حصہ مختص رکھنا چاہیے۔ کیا یہ پیغام شدت پسندی کا متبادل تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ لگتا تو یہی ہے کہ پیغامِ صوفیاء انتہا پسندی کے مقابلے میں ایک متوازن پیغام کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مذہبی منافرتوں کے تضاد میں ایک امن کا پیغام لے کر منظر پر ابھرتا ہے۔ لیکن کیا یہ عقلی طور پر قابلِ قبول ہے؟ کیا ہم عوام الناس کو اس قسم کی افیون کھلا کر ان کی عقل کو مفلوج نہیں کر رہے؟ کیا یہ ایسے ہی نہیں کہ مذہبی منافرتوں کو ختم کرنے کیلیے عقلی طور پر باشعور بنا دینے کے بجائے، انہیں انسانیت کی تعلیم دیتے ہوئے مذہبی و فرقہ وارانہ اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے، ایک دوسرے کے عقائد کے احترام کی تعلیم دینے کے بجائے، سب اچھا ہے سب ایک ہے کا لایعنی درس دیا جائے جسے معاشرے کا ضعیف الاعتقاد طبقہ تو قبول کر سکتا ہے مگر باشعور طبقہ نہیں۔ یہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے، شتر مرغ کی طرح سر مٹی میں دبا لینے کے مترادف ہے۔ یہ عقلیت پسندی کی راہ کی رکاوٹ ہے۔ تصوف، روحانیت کے ادارے عقل و فکر کو پنپنے نہیں دیتے۔ ہم نے ہر قسم کے عقائد سے ماوراء جا کر اس خطے کی نشاۃ ثانیہ کیلیے فکری و عملی طور پر جد و جہد کرنی ہے۔ ہم نے بے سروپا قصہ کہانیوں لایعنی معجزات و کرامات کی ماورائی سائنس سے دامن چھڑانا ہے۔ ہم نے اپنا تعلق عقلیت پرستی سے جوڑنا ہے مثالیت پرستی سے نہیں۔
ﺁﺝ کے ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﭘﺮﮐﮭﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﻮ ﻣﺪﻧﻈﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺏ “ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ” ﮐﻮ ﺍﺯ ﺳﺮ ﻧﻮ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﺮﯾﮟ- ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻓﻮﻕ ﺍﻟﻔﻄﺮﺕ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻭ ﻗﺼﺎﺋﺺ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭘﮩﻠﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎں ﮐﺮﯾﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﻭ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﻭ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﺋﯿﮟ- ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﺟﻮ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﻮﮌ ﻟﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﻣﻨﺤﺮﻑ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ- ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﻭ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻋﮩﺪ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻘﺎﺿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﮐﺎ ﺁﻭﺍﺯﮦ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮ ﻋﻤﺮﺍﻧﯽ ﻭ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺻﻼﺡ ﻭ ﻓﻼﺡ ﮐﺎ ﻏﻠﻐﻠﮧ ﮨﮯ، ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﯽ ﻣﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﺮﻑ ﻏﻠﻂ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﭩﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﻋﮩﺪ ﺣﺎﺿﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻭ ﻣﺒﺎﻟﻐﮧ ﺁﺭﺍﺋﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ، ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﺸﮑﯿﮏ ﮐﺎ ﻋﮩﺪ ﮨﮯ، ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﻦ ﻭ ﻋﻦ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ، ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﻟﺪ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﻮﮒ ﺁﻣﻨﺎ ﻭ ﺻﺪﻗﻨﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﺁﺝ ﺻﻮﺭتِ حال ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﮯ، ﺁﺝ ﮐﯽ ﭘﻮﺩ ﻗﺪﯾﻢ ﺍﺛﺒﺎﺗﯽ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺮﮔﺸﺘﮧ، ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﻓﮑﺮ کو ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﺮﮐﮭﮯ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﭼﻨﺪ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﻣﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﺭ ﺩﺍﺭﺩ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺼﺎﺋﺺ ﺳﮯ “ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﮐﻤﺎﻻﺕ ﻭ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ” ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﺍﻧﺸﻤﻨﺪﺍﻧﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺒﻮﻝ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، گو کہ یہ ایک برا خیال بھی نہیں۔
تاریخ کو مسخ کر کے نئے پیکٹ میں اور فی زمانہ کے حساب سے اسے بدلنے کی روش قطعی نئی نہیں ہے، لیکن کم از کم مسلم معاشرے کو اس چیز کی صورتحال کا ادراک تو ہونے لگا ہے۔ جس بنا پر ایسی کوششیں ممکن ہو رہی ہیں، جن کے متعلق خیال ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔
اس سب کے بعد آخرش کہنا چاہتا ہوں کہ: روحانیت کا تعلق کسی مذہب کسی فلسفہ سے نہیں ہوتا، یہ انسان کے اپنے اندر یقین کی صورت ہوتی ہے۔ صوفی ولی سادھو گیانی سنیاسی بھکشو جوگی برہمچاری لامائی جیسے لوگ دنیا میں ہر جگہ ہر خطے ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ روحانیت کسی کی جاگیر نہیں اور نا ہی کسی مصلح یا پیغمبر کی میراث ہے۔ درحقیقت مجذوب وہی ہے جو حق کی راہ میں نکلتا ہے اور سچ جاننے کیلیے غور و فکر اور تحقیق کرتا ہے۔ حق کی راہ میں نکلنے والا بڑی ذہنی اذیت سے گزرتا ہے اس کے اندر بڑی توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے عقائد سے لڑتا ہے۔ مجذوب کی خامی یا خوبی ہی یہی ہوتی ہے وہ موجودہ یا گزشتہ کو رد کرتا چلا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے علم و تمدن کی ترقی میں انہی مجذوبوں کا ہاتھ ہے۔ انسان کی تاریخ کو سیاست، قتل و غارت کے ریکارڈ کے بجائے ان مجذوبوں کے پسِ منظر میں دیکھا جائے۔ جنہوں نے اپنی سوچ، نظرئیے، ایجادات اور دریافت کے ذریعے نوعِ انسانی کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جنہوں نے صداقت کا چہرہ دکھایا۔ مجذوب وہی ہوتا ہے جس پر حق سچ کے سفر میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے، جو جو راز و اسرار اس پر کھلتے ہیں وہ پوری دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ اور یہ مجذوب سائنسدان، محقق، فنکار حضرات ہی تو ہیں جو اپنے علم سے تحقیق سے دنیا کو روشن کیے جا رہے ہیں۔ نوعِ انسانی پہ درِ صداقت وا کیے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے دنیا کو ‘روشن’ کر دیا، جنہوں نے دنیا کو ‘پر’ لگا دیے، جنہوں نے دنیا بھر کے فاصلوں کو سمیٹ کر تمام انسانوں کو مربوط کر دیا۔ پس اگر کوئی خدا ہے بھی تو معراج کے اصل حقدار بھی یہی مجذوب ہیں جنہوں نے عقلیت پسندی سے رشتہ جوڑے رکھا، مثالیت پسندی کی راہیں اپنا کر خود کو اور دنیا کو بے وقوف نہیں بنایا۔
Comments